ایسا بھی نہیں ، ان سے ملادے کوئی آکر
کیسے ہیں وہ، اتنا تو بتا دے کوئی آکر
سوکھی ہیں بڑی دیر سے بلکوں کی زمینیں
بس آج تو جی بھر کے رلا دے کوئی آکر
برسوں کی دعا پھر سے کہیں خاک میں مل جائے
یہ ابر بھی آندھی نہ اڑا دے کوئی آکر
ہر گھر ہے آواز ہر اک در پہ ہے دستک
بیٹھا ہوں مجھکو بھی صدا دے کوئی آکر
اس خواہش ناکام کا خون بھی میرے سر ہے
زندہ ہوں اس کی بھی سزا دے کوئی آکر
Posted on May 28, 2014
سماجی رابطہ