میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی
کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی
کوئی باغ جل رہا ہے، یہ مگر مری دعا ہے
مرے پھول تک نہ پہنچے، یہ ہوا تمازتوں کی
مرا کون سا ہے موسم مرے موسموں کے والی!
یہ بہار بے دلی کی، یہ خزاں مروّتوں کی
میں قدیم بام و در میں انہیں جا کے ڈھونڈتا ہوں
وہ دیار نکہتوں کے، وہ فضائیں چاہتوں کی
کہیں چاند یا ستارے ہوئے ہم کلام مجھ سے
کہیں پھول سیڑھیوں کے، کہیں جھاڑیاں پتوں کی
مرے کاغذوں میں شاید کہیں اب بھی سو رہی ہو
کوئی صُبح گلستاں کی، کوئی شام پربتوں کی
کہیں دشتِ دل میں شاید مری راہ تک رہی ہو
وہ قطار جُگنوں کی، وہ مہک ہری رُتوں کی
یہ نہیں کہ دب گئی ہے کہیں گردِ روز و شب میں
وہ خلش محبتوں کی، وہ کسک رفاقتوں کی
Posted on Mar 29, 2013
سماجی رابطہ