مجھے نا حوصلہ دو اب مجھے ناکام رہنے دو
نہیں دل میں سحر تو زندگی میں شام رہنے دو
کیا بے آسْرا اسنے اکیلا چھوڑ کر مجھ کو
میرے لب پہ تم اب اس بیوفا کا نام رہنے دو
مجھے عادت سی ہے چپ چاپ سا رہتا ہوں میں اکثر
مجھے پینے دو میرے ہاتھ میں بس جام رہنے دو
خزاں کے موسموں کو اب بہاروں کا چمن لکھنا
بہاروں کے چمن کو اب خزاں کے نام رہنے دو
کے دل کے فیصلے پر زندگی ناکام سی ٹھری
ہوا بدنام یہ دل اب اسے بدنام رہنے دو
اگر جو ہو سکے ممکن تو خود کو بھی سزا دینا
اگر ہو بیوفا تو خود پہ بھی الزام رہنے دو
مٹا کے اپنی ہستی کو خودی میں ہی مگن رہنا
جو زندہ ہو تو نا کوئی اَدُھورا کام رہنے دو
لکھو ایسی غزل ان بے وفاؤں کے لیے منیر
تم اپنے آپ کو بھی شاعروں میں عام رہنے دو
Posted on Oct 10, 2012
سماجی رابطہ