تمہاری آنکھیں کہتی ہیں حصار ذات سے نکلو
تمنا میری بن جاؤ ، شب برباد سے نکلو
کنارہ تھام لو دل کا بھلا دو ہر گلہ شکوہ
کبھی سچی ہنسی ہنس دو پرانی یاد سے نکلو
خیال یار اچھا ہے مگر جس نئے وفا نا کی
پلٹ کر پھر سدا نا دو ، در فریاد سے نکلو
نہیں کوئی محبت بھی ، رقابت بھی
تو یہ دھڑکا سا کیا ، کہیے ، وہم کی گھات سے نکلو
سخن ور ہم سے کہتا ہے سجا لو آنکھ میں کچھ خواب
دھڑکنا دل کو سکھلا دو ، اماوس رات سے نکلو
نہیں تم کو گوارہ اب ہمارا قرب تو کہہ دو
ہمارے کرب کی چھوڑو ، تم اس گرداب سے نکلو
سر مقتل جو جاتے ہو ، نا ہو درماندگی کچھ بھی
زمانہ دیکھ تھم جائے ، کچھ اس انداز سے نکلو . . . !
Posted on Jun 21, 2012
سماجی رابطہ