یوں ستم گر نہیں ہوتے جانا

یوں ستم گر نہیں ہوتے جانا .
پھول ، پتھر نہیں ہوتے جانا .

کیوں میری دل سے کہیں جاتے ہو .
گھر سے بے گھر نہیں ہوتے جانا .

وصال کی شب جو کرم تم نے کیے .
کیوں مقرر نہیں ہوتے جانا .

ہم تمھیں بت کی طرح پوجتے ہیں !
پھر بھی کافر نہیں ہوتے جانا .

غم کے دیپک نہیں جلتے جب تک .
دل منور نہیں ہوتے جانا .

ایک جیسے ہیں خوشی کے لمحے .
دکھ برابر نہیں ہوتے جانا .

اس قدر خون نا بہانہ دل کا .
دل سمندر نہیں ہوتے جانا . . . . !

Posted on Jun 23, 2012