آخری چند دن دسمبر کے
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزارتے ہیں
خواہشوں کے نگارخانے میں
کیسے کیسے گمان گزارتے ہیں
رفتگان کے بکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بےنوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں ڈیرے بناتی ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری اک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر میں
میرے ان بےچراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہو گے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ