میری مٹی
لرزاں آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے اشکوں کی قسم
بکھری آہوں میں بھی ہر لب پے صدا رہتی ہے
اپنی مٹی ، اور اسکی ناموس کی بقا کے لیے
ہر تڑپتے ہوئے دل میں یہ دعا رہتی ہے
اے خدا اس کو صدا یوں ہی سلامت رکھنا
اسکو اس کے جان نثاروں کی امانت رکھنا
کب کوئی امن کا طالب ہے یہ گوارا کرتا
کسی جابر کا اپنے گھر پے حکومت کرنا
کیسے پھولوں کو مسلتے ہوئے سہہ لے کوئی
جس کا مقصد ہو زمانے میں سہولت کرنا
جب بھی تم رسم محبت کو ادا کرنے چلو
اپنے پیاروں سے کیے وعدے وفا کرتے چلو
میری مٹی میں میرے سینکڑوں آباء ہیں دفن
ان کے خوابوں کو مل جل کے امر کرنا ہوگا
یوں تو ہر گام پے لغزش بھی یقیناً ہوگی
پھر بھی ہر جنگ میں گر گر کے سنبھلنا ہوگا
اس کے نام پے ہر بار سرِ کٹوائیں گے
جانِ دے کر بھی صدا حیات ہم کہلائیں گے
میری مٹی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ