19 اکتوبر 2015
وقت اشاعت: 7:48
مگرمچھوں کے مسکن ’’منگھوپیر‘‘کا ماضی اور حال
کراچی......ساگر سہندڑو......کراچی کے شمال مغرب میں اورنگی ٹاؤن سے قریب گڈاپ ٹاؤن کا علاقہ ان دنوں بے شک بعض جرائم پیشہ افراد کے سبب نیک نامی کا باعث نہ ہو لیکن منگھوپیرمیں موجود مگر مچھ اور حضرت سلطان منگھوپیر کا مزار اس علاقے کی آٹھ سو سالہ تاریخ کے گواہ ہیں۔
صنعتی فیکٹریاں لگنے کے بعد قبضہ مافیا کے چنگل میں پھنسنے والے علاقے منگھوپیر کے حوالے سے مورخ گل حسن کلمتی اپنی کتاب ” کراچی سندھ جی مارئی “ میں لکھتے ہیں حاجی سلطان المعروف منگھوپیر کی پیدائش 1162ء جبکہ وفات 1252ء میں ہوئی تھی لیکن یہ علاقہ اس سے پہلے بھی موجود تھا۔
سلطان حاجی منگھی ولدمحمد یوسف جو اپنے زمانے کے معروف درویش اور بزرگ تھے ان کی قلندر لعل شہباز ، حضرت فرید گنج شکر بہاؤ الدین زکریا اور حضرت جلال الدین بخاری سمیت دیگر عامل اور بزرگوں سے دوستی تھی۔ ایک روایت کے مطابق بزرگ سلطان منگھو حضرت فرید گنج شکر اور قلندر شہباز کی صحبت میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اوراس کے بعد درویش اور بزرگ بنے۔
قلندر شہباز اور حضرت فرید گنج شکر سے قربت کی وجہ سے سلطان منگھوپیر کی وفات کے بعد ان کی یاد میں 9 ذوالحج کو ایک دن کا عرس بھی منعقد کیا جاتا ہے جس میں سندھ اور بلوچستان سمیت ملک کے دیگر حصوں سے بڑے عقیدت مند شرکت کرتے ہیں -ان کے مزار پر’ شیدیوں‘ کا ایک اور میلہ بھی ہوتا ہے جو ان کے میلے سے کئی سو سال پہلے سے لگتا آرہا ہے۔
ایک روایت کے مطابق قلندر شہباز جب سلطان منگھوپیر کے پاس آئے تو انہوں نے مگر مچھ پر سواری کی جس کے بعد سلطان منگھوپیر ان کے معتقد ہوئے۔ دوسری روایت کے مطابق منگھوپیر نے ندی میں پھول پھینکے جس کے بعد وہ مگر مچھ میں تبدیل ہوگئے جبکہ ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت فرید شکر نے اپنا ایک کپڑا ندی کے اوپر صاف کرنے کی غرض سے اچھالا تو اس کے نکلنے والے ذرات مگر مچھ میں بدل گئے۔
مگر مچھوں سے منسوب تاریخ اور کہانیاں
سندھ کی تاریخ پر لکھی گئی اکثر کتابوں میں مگر مچھوں کا ذکر ملتا ہے ۔مورخ کیپٹن ای بی اسیٹوک اپنی کتاب” نئے مصر کے پرانے اوراق“ میں لکھتے ہیں ”کراچی میں مگر مچھوں کی ندی ہے جہاں ہر سال موسم بہار میں افریقی نسل کے علاقائی لوگ ( شیدی) جمع ہوتے ہیں اور سب سے بوڑھے اور سردار مگر مچھ کو گوشت کا نذرانہ دیکر دس روزہ میلے کا آغاز کرتے ہیں۔
جنگ سے بات گفتگو کرتے ہوئے گل حسن کلمتی نے بتایاا” تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مگر مچھ سلطان منگھوپیر سے بھی پہلے سے وہاں موجود تھے“۔مورخ بدر ابڑو کے مطابق منگھوپیر میں موجود مگر مچھوں کی تاریخ سکندر اعظم کے دور میں بھی ملتی ہے ، منگھوپیر سمیت حب ندی میں بھی مگر مچھوں کی موجودگی کے آثار ملتے ہیں۔ منگھوپیر میں لگنے والا سالانہ مگر مچھ میلا کم سے کم آٹھ سو سال پرانا میلا ہے جو ہر سال اپریل اور مئی میں لگتا ہے۔
افریقی نسل کے پاکستانی ’شیدی بلوچ‘ جن کے گھنگھریالے بال ہوتے ہیں وہ ہر سال اپریل اور مئی میں منگھوپیر میں جمع ہوتے ہیں اور سب سے بڑے مگر مچھ جسے ” مور “ کہتے ہیں اس کو کالی بے داغ صحت مند بکری کا گوشت پیش کرتے ہیں اگر مگر مچھ نے گوشت کھالیا تو جمع شدہ تمام مرد اور خواتین ایک ساتھ ناچنے اور نعرے لگانے لگتے ہیں۔
منگھوپیر میں پہاڑیوں کے دامن کو چیر کر زمین پر پہنچنے والے گرم اور قدرتی اجز کی آمیزیش والے پانی کی یک ندی بھی ہے۔ندی کا پانی جلد کے امراض کے لئے فائدہ مند ہونے کے باعث یہاں روزانہ رش رہتا ہے۔ جلد کے امراض میں مبتلا ہزاروں افراد ملک بھر سے یہاں آتے ہیں اور گرم پانی میں نہا کر شفا حاصل کرتے ہیں۔