1 اکتوبر 2012
وقت اشاعت: 12:36
جسم میں تحلیل ہونے والے برقی آلات
امریکی سائنسدانوں نے انتہائی باریک برقی آلات ایجاد کر لیے ہیں جو انسانی جسم میں حل ہو جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ان آلات کا مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج میں کردار ہو سکتا ہے۔
جریدے ’سائنس‘ میں شائع تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ یہ آلات اپنا کام مکمل کرنے کے بعد جسم میں حل ہو جائیں گے۔
اس تکنیک کا استعمال زخموں کو گرم رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ اس پر بیکٹریا کے حملوں کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ انفیکشن سے بچا جا سکے۔
یہ آلات سیلیکون اور میگنیشیم آکسائیڈ کے بنے ہیں اور تحفظ کے لیے انہیں ریشم کے باریک ترین پردوں میں لپیٹا گیا ہے۔
یہ تحقیق ٹرانزیئنٹ الیکٹرانکس کے شعبے سے تعلق رکھتی ہے اور اسے ان محققوں نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے جنھوں نے برقی ٹیٹو بنائے ہیں جو جلد کے ساتھ پھیلتے اور سکڑتے رہتے ہیں۔
انھوں نے اپنے اس غائب یا حل ہو جانے والے آلات کو روایتی برقیات کے مقابلے ’پولر اپوزٹ‘ یعنی قطبی مخالف کا نام دیا ہے۔ روایتی برقی آلات پائیدار اور ٹھوس ہوتے ہیں جبکہ یہ آلات جسم کے ساتھ پھیلتے سکڑتے ہیں اور جسم میں ہی ضم ہو کر ختم ہو جاتے ہیں۔
اس طریقہ کار میں دو چیزیں کار فرما ہیں: ایک یہ کہ اس میں اشیا حل ہو جاتی ہیں اور دوسرے اس میں یہ بھی شامل ہے کہ انھیں کب حل ہونا ہے۔
سلیکون پانی میں تحلیل ہو ہی جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روایتی برقیات میں سلیکون سے بننے والے آلات اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ وہ تحلیل ہونے میں بہت زیادہ وقت لگاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے سیلیکون کی ایک ایسی باریک جھلی تخلیق کی جو ہفتوں اور دنوں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس جھلّی کا نام انھوں نے نینو میمبرین رکھا ہے۔ ان کی تحلیل کی رفتار کو ریشم کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، اور یہ مادہ ریشم کے کیڑے سے حاصل کیا جاتا ہے۔
ٹفٹ اسکول آف انجینیئرنگ کے پروفیسر فائرنزو اومینیٹو نے کہا: ’موجودہ آلات کے مقابلے میں ٹرانزیئنٹ الیکٹرانکس کی کار کردگی بہتر ہے کیونکہ وہ ماحول میں ایک معینہ مدت کے اندر پوری طرح سے گھل جاتے ہیں، خواہ منٹوں میں یا برسوں میں۔‘
تجربہ گاہ میں اس کے متعدد اقسام کے استعمال پر تحقیق کی گئی ہے جن میں چونسٹھ میگا پکسل ڈیجیٹل کیمرے سے لے کر حرارت جانچنے والے آلات اور شمسی خلیے شامل ہیں۔
یونورسٹی آف الی نوئے کے پروفیسر جان روجرز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’یہ جدید تصور ہے، اس لیے اس میں کافی امکانات ہیں جن میں سے بہت سوں کی ابھی نشاندہی بھی نہیں کی جا سکی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’زخموں میں انفیکشن ہو جانا اس تحقیق کا محرک ہے۔ اس کے ذریعے سرجری کے بعد زخم کی جگہ پر ان آلات کو نصب کیا جا سکتا ہے۔‘
اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کی ضرورت سرجری کے بعد کے نازک عرصے میں ہوگی یعنی دو ہفتے تک۔
ریسرچ کرنے والوں نے اس کا استعمال چوہوں پر زخم کو گرم کرنے کے لیے کیا ہے تاکہ زخم کی جگہ پر موجود جراثیم ہلاک ہو جائیں۔
اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کو دوسرے مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر جسم کے اندر ایسی دواؤں کا داخلہ جو آہستہ آہستہ خارج ہوتی رہیں۔ مزید یہ کہ اس ٹیکنالوجی سے بنے سینسر دل اور دماغ میں داخل کیے جا سکتے ہیں۔
اسے ایسے کمپیوٹر اور موبائل فون بنانے کے لیے بھی کام میں لایا جا سکتا ہے جو ماحول دوست ہوں۔
پروفیسر اومینیٹو کہتے ہیں، ذرا ایک ایسے فون کا تصور کیجیے جو (بے کار ہونے کے بعد) کوڑے کے ڈھیر پر سالہا سال تک پڑا رہنے کی بجائے گھل کر ختم ہو جائے۔‘