11 اکتوبر 2011
وقت اشاعت: 13:0
آئی ایس آئی اور حقانی نیٹ ورک میں رابطوں کے ثبوت نہیں ، امریکی جریدہ
جنگ نیوز -
واشنگٹن …جنگ نیوز…امریکی جریدے ٹائم میگزین نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت اور القاعدہ کے غیر موثر ہونے کے بعد امریکا نے افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کا نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے اور نہ ہی کوئی ایسے ثبوت موجود ہیں جن کی بنیاد پر پاکستانی خفیہ ادارے کے حقانی نیٹ ورک سے روابط ثابت ہو ں ۔جریدہ لکھتا ہے کہ اس بہانے افغان صدر حامد کرزئی پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تاہم ان کی مبہم اور غیر موثر کوششوں سے لگتا ہے کہ قابض طاقتوں کے لئے افغانستان میں وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان حقانی نیٹ ورک کے معاملے پر حالیہ کشیدگی کے بارے میں یہ تبصرہ ٹائم جریدے نے اپنے ایک حالیہ رپورٹ میں کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیٹو کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران نیٹو کے زیر قیادت اتحادی افواج نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف 5 سو کارروائیاں کی ہیں۔ نیٹو کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں میں بڑی کامیابی اس وقت ملی جب انہوں نے حقانی نیٹ ورک کے ایک سرکردہ کمانڈر حاجی مالی خان کو گرفتار کیا۔ حاجی مالی خان کو جریدے کے مطابق نیٹو حکام حقانی نیٹ ورک کے ایک سرکردہ کمانڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایساف کے مطابق حاجی مالی خان جنگجوؤں کو پاکستان سے اٰفغانستان منتقل کرنے کے فرائض سرانجام دیتے تھے اور وہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان کے درمیان سفیر کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ تاہم جریدے کے مطابق افغانستان انیلاسٹ نیٹ ورک کے ایک ماہر تھامس روتھگ کا کہنا ہے کہ نیٹو ایک معمولی کامیابی کا ڈھونڈورا پیٹ رہے ہیں انہیں اور زیادہ کام کرنا ہے۔ کیونکہ حاجی مالی خان حقانی نیٹ ورک کے سرکردہ 5 کمانڈروں میں شامل نہیں۔ تھامس روتھگ کا کہنا ہے کہ مالی خان کوئی مشہور شخص نہیں وہ صرف مقامی طورپر اہمیت رکھتا ہے لیکن اس کی گرفتاری امریکا کی القاعدہ کے خلاف ماضی میں بڑی کامیابیاں حاصل کرنے کے دعوؤں کی طرح ہیں جس طرح انہوں نے غیر معروف افراد کو القاعدہ کے نمبر چار اورنمبر پانچ کے طورپر پیش کر کے انہیں پکڑنے یا مارنے کے دعوئے کئے تھے تاہم جریدے نے افغانستان کے خوست صوبے کے کور کمانڈر جنرل اور یہ خلیل سے جب پوچھا گیا کہ وہ پاکستان کے اندر جا کر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی اہلیت رکھتے ہیں تو جریدے کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے سرحدوں پر سیکورٹی کے فرائض سرانجام تو دے نہیں سکتے، پاکستانی علاقوں میں کس طرح گھس کر علاقے کو کلیئر کرینگے۔ جنرل اور یہ خلیل کا کہنا تھا کہ ہم کابل کے نزدیک واقعہ لوگر صوبے نہیں جا سکتے۔ یہ کسی طرح بھی افغانستان کے مفاد میں نہیں کہ اپنے سرحدوں پر لڑائی چھیڑ دے۔ اس لئے ہمیں پہلے مقامی مسئلوں پر توجہ دینی چاہیے۔ جریدے کے مطابق دوسری جانب روتھگ کا کہنا ہے کہ ہم کسی طرح بھی یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آئی ایس آئی کسی طرح بھی حقانی نیٹ ورک یا دوسرے شدت پسند گروپوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔