14 فروری 2011
وقت اشاعت: 14:24
ایران
ایران
اسلامی جمہوریہ ایران کو ایشیا کا کاسہ بھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارا مغربی ہمسایہ ہے۔ یہاں بڑے بڑے ریگستان بھی ہیں اور ٹھٹھرا دینے والے سرد علاقے بھی۔ جنوب مغربی ایشیا میں واقع اس اسلامی ریاست کا کل رقبہ چھ لاکھ اٹھائیس ہزار مربع میل ہے۔ اس کے مشرق میں افغانستان اور ہمارا پیارا وطن پاکستان ہے، مغرب میں ترکی اور عراق اور شمال میں روس واقع ہیں۔ ایران کو 20 صوبوں اور دو گورنریوں میں تقسیم کیا گیا ہے، تہران، یہاں کا دارالخلافہ ہے۔ مشہور شہروں میں شیراز، اصفہان، اہواز، آبادان، کرمان شاہ، مشہد، تبریز اور قم قابل ذکر ہین۔ خرم شہر، بوشہر، بندر شاہ پور اور بندر عباس ایران کی مشہور بندر گاہیں ہیں۔
51 فیصد لوگ شہروں میں رہتے ہیں۔ فارسی یہاں قومی زبان ہے۔ تاہم ترکی اور عربی بھی کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ تقریباً 48 فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں۔ ’ریال‘ ایران کی کرنسی ہے۔ یہاں کے کاریگر خصوصاً قالین، شالیں، دوشالے بننے اور تانبے، لکڑی اور پیتل پر پھول بنانے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ایران ہی میں سعدی شیرازی اور مولانا رومی جیسی عظیم شخصیات نے جنم لیا۔ یہاں کے 98 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔
اسٹیل، کیمیاوی ادویات، سیمنٹ سازی، آٹو اسمبلنگ چینی سازی اور قالین بافی قابل ذکر صنعتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ جبکہ فصلوں میں گیہوں، باجرہ، چاول، اناج، گنا، چقندر، ریشم اور کپاس اہمیت کی حامل ہیں۔ پھلوں میں انگور، خوبانی، بادام، انار اور سیب قابل ذکر ہیں۔ تیل، گیس، کرومائیٹ، تانبہ، خام لوہا، سیسہ، میگانائز، زنک، برائیٹ، سلفر، کوئلہ، زمرد، اور فیروزہ یہاں کی مشہور معدنیات ہیں۔ اس کے علاوہ گوند، ریشم، اون، کبوتر اور مچھلی بھی حاصل ہوتی ہے۔ درآمدات میں مشینری، گاڑیاں، بنیادی اشیائے پیداوار، خوراک، زندہ جانور، کیمیکلز، خوردنی تیل اور مکھن وغیرہ سر فہرست ہیں۔ برآمدات میں خام تیل سب سے اہم ہے۔ تجارتی ساتھیوں میں پاکستان، فرانس، بھارت، لیبیا، شام اور ”چین“ قابل ذکر ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی میں نور ایمان سے منور ہوا۔ نویں صدی تک سائنس اور فن کا گہوارہ رہا۔ گیارہ سے سولہویں صدی تک یہ ترکوں اور منگولوں کے ماتحت رہا۔ انیسویں صدی میں یہاں روس اور برطانیہ نےاپنا اثر پھیلایا۔ 1857ء کو برطانیہ نے افغانستان اور ایران کو علیحدہ کردیا۔