جاپانی ماہرین فلکیات نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اب تک کی دور ترین کہکشاؤں کا کھوج لگایا ہے۔ ان ماہرین کے مطابق کہکشاؤں کا یہ سلسلہ یا گچھا زمین سے 12.72 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
روشنی کی رفتار 186000 ہزار میل یا قریب 300000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہے۔ ایک نوری سال کا مطلب وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے۔ نئی دریافت شدہ کہکشاؤں کی زمین سے دوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ روشنی کی رفتار سے بھی سفر کریں تو ان کہکشاؤں تک پہنچنے کے لیے آپ کو قریب 13 ارب سال لگ جائیں گے۔
جاپانی ماہرین فلکیات نے ان نئی کہکشاؤں کا کھوج ہوائی میں نصب طاقتور ٹیلی اسکوپ کے ذریعے لگایا۔ ماہرین کی اس ٹیم نے ایک پریس کانفرنس میں اپنی اس دریافت کے بارے میں میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا: ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہکشاؤں کا یہ گچھا تخلیق کائنات کے ابتدائی ادوار میں موجود تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اندازوں کے مطابق 13.7 بلین برس قبل کائنات کو وجود میں آئے محض ایک ارب سال ہی ہوا تھا۔‘‘
ہوائی میں نصب سوبارو Subaru نامی فلکیاتی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے یہ دریافت جاپان کی گریجویٹ یونیورسٹی آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اور جاپان ہی کی نیشنل ایسٹرونومیکل اوبزرویٹری کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
کہکشاؤں کے اس مجموعے کی دریافت سے امید کی جا رہی ہے کہ سائنسدانوں کو کائنات کی بناوٹ کے علاوہ یہ بات بھی سمجھنے میں مدد ملے گی کہ کہکشائیں کیسے وجود میں آئیں۔
اس اسٹڈی کے نتائج امریکہ کے تحقیقی جریدے ’اَیسٹرو فزیکل جرنل‘ میں شائع ہوں گے۔ قبل ازیں سائنسدانوں نے ناسا کی ہبل نامی دوربین کو استعمال کرتے ہوئے امکان ظاہر کیا تھا کہ زمین سے 13.1 بلین سال کی دوری پر کہکشاؤں کا ایک سلسلہ موجود ہو سکتا ہے۔ تاہم جاپانی سائنسدانوں کے مطابق ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا۔
12.72 ارب نوری سال کے فاصلے پر نئی کہکشاؤں کی دریافت
Posted on Apr 26, 2012
سماجی رابطہ