پاکستان کی ایک نجی فضائی کمپنی ایئر بلو کا ایک مسافر بردار طیارہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے شمال میں مارگلہ پہاڑیوں پر گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ طیارے میں ایک سو چھیالیس مسافروں کے علاوہ عملے کے چھ اہلکار سوار تھے اور اب تک ایک سو انتیس لاشیں ہسپتال پہنچا دی گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ بارہ لاشیں شناخت کے بعد لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ لاشوں کی شناخت ڈی۔این۔اے کے ذریعے کرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جہاز پر سوار تمام افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں دو امریکی اور ایک صومالی شہری بھی شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ائر کنٹرول ٹاور کو کوئی ایمرجنسی پیغام موصول نہیں ہوا۔ اس حادثے کے اسباب کا حتمی علم جہاز کے بلیک باکس کے ملنے کے بعد ہی ہو سکے گا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس حادثے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس کے علاوہ آج ہونے والا کابینہ کا اجلاس منسوخ کر دیا گیا اور حکومت نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ وزیر داخلہ رحمان ملک نے بتایا کہ طیارے کو کہوٹہ کی بجائے مری روڈ کی جانب سے اترنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس دوران چکر لگاتے ہوئے طیارہ دو ہزار چھ سو فٹ کی اونچائی تک آگیا لیکن اس کے بعد دوبارہ تین ہزار فٹ تک چلا گیا۔ ’یہ اچانک اوپر اٹھنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو سول ایوی ایشن اتھارٹی کی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں پر جگہ جگہ آگ اور دھواں بھی اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔ ائر بلو کا یہ جہاز کراچی سے صبح سات بج کر پینتالیس منٹ پر روانہ ہوا۔ فضائی کمپنی ائر بلو کے جنرل منیجر مارکیٹنگ راحیل احمد نے کراچی میں ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ پرواز کے لیے فٹ تھا۔ جہاز میں کسی قسم کی فنی خرابی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جنرل منیجر کا کہنا تھا کہ طیارے میں ایک سو باون لوگ سوار تھے جن میں عملے کے چھ لوگ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں دو کمسن بچے بھی سوار تھے جن کی عمریں تین سال کے اندر تھی۔ انہوں نے بتایا ہے کہ حادثے کا شکار جہاز ائر بس تین سو اکیس ہے۔ اور ایئر بلو کے پاس چھ ایئر بس طیارے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ نجی فضائی کمپنی ائر بلو جون دو ہزار چار سے کام کر رہی ہے اور اس نجی کمپنی کے طیارے کو پہلی مرتبہ حادثہ پیش آیا ہے۔ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس اور ایف سیون کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ صبح انہوں نے ایک مسافر طیارے کو انتہائی نیچی پرواز کرتے دیکھا ہے۔ اسلام آباد میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے شدید بارش کا سلسلہ جاری ہے اور صبح بھی شہر پر کافی نیچے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اسلام آباد کا بینظیر بھٹو بین الاقوامی ہوائی اڈہ شہر کے جنوب میں واقع ہے۔ اور سیکٹر ایف سیون اور سکس پر سے پروازیں نہیں گزرتیں۔ یہ علاقے اہم سرکاری عمارات کے قریب بھی واقع ہے۔ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق امدادی کاموں میں حصہ لینے کے لیے تین ہیلی کاپٹر اور ایک انفنٹری بٹالین کو روانہ کر دیا گیا ہے۔ جائے حادثہ مارگلہ پہاڑیوں پر موجود ہمارے نامہ نگار نے بتایا کہ پہاڑی کے چوٹی سے تھوڑا نیچے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا ہے اور سفید سفید ٹکڑے بھی نظر آ رہے ہیں۔ سول ڈیفنس، فوج، کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ریسکیو 1122 کے اہلکار امدادی کاموں کے لیے روانہ ہیں۔ فائر بریگیڈ اور ایمبولینس مارگلہ پہاڑی کی سڑک پر موجود ہیں۔ امدادی کارکن کچے راستے سے جہاز تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا ہے وہاں سڑک نہیں جاتی۔ اسلام آباد کے ڈی آئی جی بنیامن جو امدادی کاموں کے انچارج ہیں کا کہنا ہے کہ امدادی کاموں میں مشکل اس لیے ہو رہی ہے کہ ملبے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امدادی کام کے لیے راستہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اعضا اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور بیگوں میں ڈالے جا رہے ہیں۔ نامہ نگار نے بتایا کہ جہاز کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہیں اور ملبے میں آگ لگی ہوئی ہے اور امدادی کام نہایت غیر منظم طریقے سے جاری ہے۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے پانی پھینکا جائے تاکہ ملبے میں لگی آگ بجھے تو مزید امدادی کارروائی ہو سکے۔ رشتے دار امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق بینظیر بھٹو بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس فلائٹ سے آنے والوں کے رشتہ دار بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ارشد محمود نے اے پی کو بتایا ’میرا بھائی مولانا نواب الحسن اس فلائٹ پر کراچی سے آ رہا ہے۔ ہمیں کوئی کچھ نہیں بتا رہا۔ میں اس کی زندگی کے لیے دعا کر رہا ہوں۔‘ ہوائی اڈے پر موجود رضا علی نے بتایا کہ ان کے رشتے دار نے اس جہاز پر آنا تھا۔ ’میں اللہ کا شکر کرتا ہوں کہ اس فلائیٹ پر سوار نہ ہو سکے۔‘ اسلام آباد میں واقع پمز ہسپتال پمز اسپتال کے سربراہ محمود جمال نے صحافیوں کو بتایا کہ لاشوں کی نمبرنگ شروع کردی ہے اور ان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا۔ ’پندرہ لاشوں کا بیرونی معائنہ مکمل کرکے ہم نے نمبرنگ کردی ہے۔ باقی دیکھیں اب جو مزید (بیگس) تھیلے آرہے ہیں تو کسی ایک بیگ میں دو دو تین تین لاشیں بھی ہوتی ہیں تو اس کے لیے تین سے چار چار گھنٹے درکار ہیں۔‘ ’ہم ان کے فوٹو گراف لے رہے ہیں۔ ان کے ٹکڑوں کی تصویریں لے رہے ہیں۔ لاشوں کی نمبرنگ کررہے ہیں اور ڈی این اے وغیرہ کررہے ہیں اور ہمارا جو عملہ ہے وہ رات کو بھی یہی کام کرتا رہے گا۔‘
اسلام آباد فضائی حادثہ، تمام ایک سو باون مسافر ہلاک
Posted on Feb 25, 2011
سماجی رابطہ