بر اعظم انٹارکٹیکا میں برف تلے ایک قدیم جھیل میں زندگی کے آثار ڈھونڈنے کا برطانوی منصوبہ تکنیکی مسائل اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا ہے۔
سات ارب برطانوی پاؤنڈ کی مالیت سے یہ منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا، جس کے ذریعے اس قدیم جھیل کے مقام پر طرز زندگی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے آثار کی تلاش کی جانا تھی۔ برٹش انٹارکٹک سروے BAS کے تحت شروع کیے گئے اس منصوبے کے پرنسپل محقق پروفیسر مارٹن سیگرٹ Martin Siegert تھےجو برسٹل یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔ ان کے بقول ایندھن کی کمی اور کھدائی کے دوران کچھ تکنیکی مسائل رکاوٹ بنے ہیں۔ ان کے بقول اگرچہ یہ ایک انتہائی افسوسناک بات ہے تاہم اس منصوبے سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا جو اگلی بار کام آئے گا۔
برطانوی ماہرین کو امید تھی کہ انہیں انٹارکٹیکا کی برف تلے دو میل کی گہرائی میں پائی جانے والی جھیل میں زندگی کے آثار مل جائیں گے۔ یہ قدیم جھیل کرہء ارض پر موسم کے حوالے سے سخت ترین اور فاصلے کے حوالے سے دور ترین خیال کی جاتی ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ سائنسدان پر امید تھے کہ اس قدیم جھیل سے حاصل شدہ سیپیوں کی مدد سے وہ یہ جان سکیں گے کہ آخری بار برف کی یہ تہہ کب ٹوٹی تھی اور یوں اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے گا کہ ممکنہ طور پر دوبارہ ایسا کب ہو سکتا ہے۔
’بین الاقوامی مسابقت‘
برطانیہ کی جانب سے یہ منصوبہ معطل کیے جانے کے بعد اب روس اور امریکا کے لیے اس محاذ پر سبقت لے جانے کے راستے کھل گئے ہیں۔ امریکا اور روس کے سائنسدان اس برطانوی منصوبے کے سبب خاصے سیخ پا ہیں، جس کے تحت انٹارکٹیکا کی برف تلے چھپی ہوئی ایسی جھیلوں تک رسائی کی کوشش کی گئی ہے، جو ہزاروں سال تک خفیہ رہیں۔
امریکیوں کی کوشش ہے کہ وہ جنوری 2013ء سے جھیل وہیلنز Whillans کے لیے کھدائی شروع کر دیں۔ یہ جھیل گلیشیئرز تلے دبی 360 جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس ضمن میں روس سب سے آگے ہے، جس نے سب سے پہلے 2012ء کے اوائل میں برف میں قریب تین ہزار 800 میٹر کی گہرائی تک سوراخ کر کے جھیل ووسٹوک Vostok تک رسائی حاصل کی تھی۔ کچھ سائنسدانوں کو البتہ شبہ ہےکہ روسی سائنسدانوں کے حاصل کردہ نمونوں میں کھدائی کے لیے استعمال کیے گئے مادوں کی ملاوٹ ہوگئی تھی۔
’برطانوی مشن میں رکاوٹ‘
برطانوی محققین نے دسمبر 2012ء میں بیس گھنٹوں تک برف تلے دو سوراخوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کی اور ناکامی پر گزشتہ ہفتے یہ منصوبہ ترک کیا۔ یہ دو سوراخ گرم پانی کے ساتھ کی جانے والی کھدائی کو ممکن بنانے کے لیے ضروری تھے۔ ان دو سوراخوں میں ربط نہ ہونے کے سبب گرم پانی برف کی سطح پر ضائع ہوکر مزید کھدائی کو غیر مؤثر بنا رہا تھا۔
برطانوی سائنسدانوں نے اس کے متبادل کے طور پر بھی بہت کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس کوشش میں صرف ہونے والے اضافی وقت کے سبب ایندھن کا ذخیرہ بھی اس قدر کم پڑگیا کہ یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا۔ امکان ہے کہ کم از کم تین سے لے کر پانچ سال تک کے عرصے میں برطانوی ماہرین اپنا یہ مشن دوبارہ شروع کر دیں گے۔
انٹارکٹیکا میں قدیم زندگی کے آثار کی تلاش معطل
Posted on Dec 31, 2012
سماجی رابطہ