اس سے قبل محققین کی جانب سے کہا جاتا رہا ہےکہ دنیا میں مجموعی طور پر تقریبا 100 ملین ایسی اسپیشیز موجود ہیں، جو اپنی سائنسدانوں کی نظروں میں آنے سے قبل ہی پانچ فیصد فی دہائی کے حساب سے ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔
نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے محقیقین کی جانب سے معتبرسائنسی جریدے سائنس میں شائع ہونے والی اس مطالعاتی رپورٹ میں واضح کیا گیاے کہ انواع حیات کی تعداد ’بہتات اندازہ‘ کی بنیاد پر کہی جاتی رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں حیوانات اور نباتات کی 1.5 ملین انواع پہلے ہی سائنسی کیٹالاگ کا حصہ ہیں اور اس اعتبار سے شماریاتی ماڈل ظاہر کرتا ہے کہ ان کی مجموعی تعداد سو ملین کی بجائے پانچ ملین تک ہو سکتی ہے۔ اس نئی رپورٹ میں مختلف اسپیشیز کے خاتمے کی شرح پانچ فیصد فی دہائی کی بجائے ایک فیصد فی دہائی قرار دی گئی ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ کے سربراہی کرنے والے آک لینڈ یونیورسٹی سے وابستہ مارک کوسٹیلو کے مطابق یہ نئی مطالعاتی رپورٹ عالمی سطح پر تحفظ انواع حیات کے حوالے سے ایک ’اچھی خبر‘ ہے۔
’’انواعِ حیات کے حوالے سے حقیقت سے زیادہ اندازے پیش کیے گئے جو زمین پر موجود اسپیشیز کی اصل تعداد سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان اندازوں کی وجہ سے اسپیشیز کی دریافت اور تحفظ کے حوالے سے امیدیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ہمارے مطالعاتی کام نے یہ بتایا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔‘‘
کوسٹیلو کے مطابق تازہ تحقیق کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگلے پچاس برسوں میں روئے زمین پر موجود تمام اسپیشیز دریافت کی جا سکتی ہیں، کیوں کہ دنیا میں سائسندانوں اور دیگر محققین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
’کسی نئی نوعِ حیات کو دریافت کرنے سے ایک طرف تو اسی کے ناپید ہونے کی واضح نشاندہی ہوتی ہے دوسری جانب اس کی بقاء کے لیے اقدامات کرنے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سن 2011ء میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں سائنسدانوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انسانی محرکات کی وجہ سے دنیا میں پائی جانے والی 90 فیصد حیات اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار ہے۔
انواع حیات کی دریافت سے قبل ناپیدگی کے اندازے درست نہیں
Posted on Jan 26, 2013
سماجی رابطہ