پاکستان کے دریائے سندھ میں مختلف طریقوں سے شکار کی وجہ سے انڈس ڈولفن کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2006 میں یہ تعداد 1442 تھی جبکہ گذشتہ سال کم ہوکر 1262 رہ گئی ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے 33 رکنی ٹیم نے دریائے سندھ کے 761 کلومیٹر علاقے کا سروے کرنے کے بعد یہ رپورٹ جاری کی ہے۔ اس سروے کے لیے چشمہ - تونسہ، تونسہ - گدو اور گدو - سکھر چینل کا انتخاب کیا گیا تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مچھلی کے شکار میں اضافے ، بے تحاشہ لائسنس کے اجرا، مچھلی کے شکار کے لیے زرعی ادویات کے استعمال جیسے اقدامات سے انڈس ڈولفن کی نشو نما متاثر ہو رہی ہے۔
پانی میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی انڈس ڈولفن کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کچے کے علاقے میں زراعت کے لیے کھاد اور زرعی ادویات کے استعمال سے زہریلے کیمیکل دریائے سندھ میں شامل ہوجاتے ہیں جس سے پانی زہریلا ہوجاتا ہے اور ڈولفن کے اموات کا سبب بنتا ہے۔
رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ ’ان اسباب کی وجہ سے 2011 میں ڈولفن کی ہلاکت کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا اور 28 ڈولفن ہلاک ہوئیں، یہ وہی وقت تھا جب مچھلی کا شکار عروج پر تھا‘۔
انڈس ڈولفن کو مقامی زبان میں اندھی بھلن کہا جاتا ہے۔ اس کا شمار ان جانداروں میں ہوتا ہے جن کی نسل خطرے سے دوچار ہے اور ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے کی ریڈ لسٹ میں بھی شامل ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ 2010 کے سیلاب کے بعد بڑی تعداد میں ڈولفن مرگئیں یا پانی کے بھاؤ کے ساتھ دوسرے علاقوں میں چلی گئیں، اس صورتحال میں ڈولفن کی حقیقی تعداد جاننے کے لیے سروے انتہائی ضروری تھا۔
2001 کے بعد ڈبیلو ڈبلیو ایف کا یہ تیسرا سروے ہے۔ اس سے پہلے سروے میں انڈس ڈولفن کی تعداد 965 بتائی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق سکھر میں قابل تشویش صورتحال ہے اور ڈولفن کے تحفظ کے لیے انتہائی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
’ ڈولفن کی اموات کا تعلق مچھلی کے شکار سے ہے اس لیے بہتر انتظامات اور اقدامات لازمی ہیں۔‘
دریائے سندھ میں انڈس ڈولفن کی تعداد میں کمی
Posted on Aug 01, 2013
سماجی رابطہ