دوپہر کا وقت ہے اور اپ اپنے ڈیسک پر مصروف ہیں کہ ایک اور ای میل آپ کے کمپیوٹر کی سکرین کے کونے میں نمودار ہوتی ہے جس میں وہ اعداد و شمار ہیں جو پہلے ہی ایک پیپر پر آپ کی میز پر موجود ہیں اور اپ اسے سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
میز پر آپ کا لیپ ٹاپ بھی کھلا ہوا ہے جس پر کچھ اور اعداد و شمار ہیں اور کمپیوٹر کی سکرین پر موجود کچھ نمبروں میں آپ پہلے سےالجھے ہوئے ہیں اور بیس منٹ میں آپ کی میٹنگ ہے اور اس سب کے درمیان اچانک آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ ڈیٹا کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں اور ڈوبنے لگے ہیں۔
اکیسویں صدی کے دفتر اور ڈیٹا کی بھرمار کی دنیا میں آپ کا خیر مقدم ہے۔
لیکن اس صورتِ حال میں آپ اکیلے نہیں ہیں۔
ڈاکٹر لِنڈا شو مغربی لندن کی برونیل یونیورسٹی میں نیورو سائنس اور نفسیات کی لیکچرار ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ کافی عرصے سے بزنس کی دنیا کے سینئیر لوگوں سے انٹرویو کر رہی ہیں اور دراصل یہ لوگ بات کرنے سے کترا رہے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ ان سے ایسے سوال پوچھے جائیں گے جن کا جواب وہ نہیں دے پائیں گے۔
ڈاکٹر لِنڈا کا کہنا ہے کہ ہم پر ای میلوں، فیس بک، ٹوئیٹر، گوگل جیسے سرچ انجن اور سوشل میڈیا کی بھرمار ہے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پاس جتنی معلومات ہیں ہمیں اس سے زیادہ جاننے کی ضرورت ہے اور جس طرح ہم پر معلومات کی بوچھاڑ ہوتی ہے ہم اس کو ذہن نشیں نہیں کر پا رہے ہیں۔
ڈاکٹر لنڈا کے مطابق اطلاعات کی اس بھر مار میں ہم فیصلے لینے میں تاخیر سے کام لیتے ہیں اور یہی کمپیوٹر دور کی علامت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ارد گرد بہت زیادہ معلومات ہیں اور یہ سب انسانی دماغ کے لیے نیا ہے۔
ڈاکٹر لنڈا کا کہنا ہے کہ ان تمام چیزوں کے ہم پر ذاتی اور تجارتی طور پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ہم ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں تو دباؤ کے ہارمونز میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے یاداشت کی خرابی، ڈپریشن اور بلڈ پریشر کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
سسکو ویزویل نیٹ ورکنگ انڈیکس کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جس تیزی سے ڈیٹا کی بھر مار میں اضافہ ہو رہی ہے اس کے حساب سے 2015 میں اوسطاً آئی پی ٹریفک ہر سیکنڈ میں 245 ٹیرہ بائیٹ تک پہنچ جائے گا۔
اگلے تین سالوں میں تین بلین انٹرنیٹ صارف ہونگے اور مختلف آلات کے ذریعے 15 بلین نیٹ ورک کنکشن ہو جائیں گے۔
ڈیٹا کی بھر مار سے سوچ کا دھارا مفلوج
Posted on Apr 19, 2012
سماجی رابطہ