حضرت ابو ذرغفاری فرماتے ہیںکہ عبادات میں دعا کی وہی حیثیت ہے جو کھانے میں نمک کی ہے۔
دین اسلام میں دعا کی بری اہمیت ہے ۔ اسے عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔ حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرمۖ نے ارشاد فرمایا،
ترجمہ:''دعا عبادت کا مغز ہے۔''
حضرت ابو ذرغفاری فرماتے ہیں کہ عبادات میں دعا کی وہی حیثیت ہے جو کھانے میں نمک کی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر حضوراکرم ۖنے فرمایا،
ترجمہ:''دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نور ہے۔''(حاکم )
ایک اور مقام پر حضور اکرم ۖ نے ارشاد فرمایا،
ترجمہ:''کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتائوں جو تمہیں تماہارے دشمن سے نجات دلادے اور تمہارے رزق کو وسیع کردے، رات دن اﷲتعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ دعا مومن کا ہتھیارہے۔''
دعا اﷲتعالیٰ سے خیر طلب کرنے کو کہتے ہیں اور یہ افضل عبادت ہے، کیونکی دعا کرنے والا اپنے آپ کو عاجز ومحتاج اور اپنے پر وردگار کو حقیقی قادر اور حاجت روا سمجھتا اور تسلیم کرتا ہے ۔ دعا حضور قلب سے کی جائے تو وہ مقبولیت کے درجے پر فائز ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث مبارک بھی آئی ہے۔
اﷲ کے رسول ۖ نے ارشاد فرمایا ،
ترجمہ : '' خبر دار رہو! بے شک اﷲ تعالیٰ کسی غافل کھیلنے والے دل کی دعا قبول نہیں فرماتا۔''
دعا یقین کامل اور قطعیت کسے ساتھ مانگی جائے ۔ بس دل میں یہ یقین کامل ہو کہ رب العالمن ہے ۔ پھر وہ دعا کو سنتا بھی ہے اور قبول کرتا ہے ۔ وہ صرف اس کی دعا نہیںسنتا جو اس سے غافل اور بے پرواہو۔
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور ۖ نے ارشاد فرمایا،
ترجمہ:''جب تم میں سے کوئی دعا کر ے تو اس طرح نہ کہے کہ ، اے اﷲ، تو اگر چاہے تو مجھے بخش دے اور تو چاہے تو مجھ پر اپنی رحمت فرما، اور تو چاہے تو مجھے روزی عطا فرما، بلکہ اپنی جانب سے پورے عزم اور قطعیت سے اﷲسے دعا مانگے اور یقین کرلے کہ بے شک وہی جو چاہے گا، کریگا ، کوئی بھی ایسا نہیں جو اس پر زور ڈال کر اس سے اپنا کام کرواسکے''۔( صحیح بخاری ۔)
سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے قریب تر ہوتا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ سجدے کی حلت میں اس سے مانگا جائے۔
نبی کریم ۖ نے ارشاد فرمایا،
''سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہوتاہے، پس تم اس حالت میں خوب دعا مانگا کرو۔''
حضوراکرمۖ کا ارشاد پاک ہے، ''گناہ گار بندہ زمانے کا پریشان قبولیت کی امید میں اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس پر نظر نہیں فرماتا، بندہ دوبارہ دعا کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ پھر اعراض فرماتا ہے، بندہ پھر گڑگڑ اتے ہوئے گریہ وزاری کرتا ہے تو اﷲتعالیٰ سنتا ہے اور فرشتوں سے فرماتا ہے کہ'' اے میرے فرشتوں ! مجھے اپنے اس بندے سے حیا آئی کہ میرے سوا اس کا کوئی نہیں ، اس کی دعا کو میں نے قبول کیا اور اس کی امید کو میں نے پورا کیا کہ بندے کی دعا اور گریہ وزاری سے میں حیا کرتا ہوں۔''
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب نیند غلبہ کرے تو ذکرکر و اور نماز ملتوی کردو ، کہیں ایسا نیہ ہو کہ چاہ استغفار اور نیند کے عالم میں بدعا نکل جائے۔
علمائے کرام لکھتے ہیں کہ دعا کرنے سے قبل وضوکر لیا جائے پھر قبلہ رخ ہو کر دو زانو( اگر ہو سکے ) ورنہ باادب بیٹھیں ۔ دعا شروع کرنے سے قبل اﷲ کی جانب لولگالی جائے، دل کو حتی الامکان دنیا وی حالات سے پاک کرے اور اعضاء کو عاجزی کے انداز میں رکھے ۔ انفرادی دعا کے بارے میں کہا گیا کہ یہ آہستہ ہو۔ حضرت حسن بصری کا قول ہے ، '' آہستہ دعا کرنا اعلانیہ دعا کرنے سے ستر درجے زیادہ افضل ہے۔''
حضرت عبداﷲابن عباس سے روایتے ہے کہ حضوراکرم ۖ نے ارشاد فرمایا، اﷲ سے ہاتھ اٹھا کر ایسے دعا مانگا کر و کہ ہتھیلیوں کا رک سامنے ہو ۔ ہاتھ الٹے کر کے نہ مانگا کرو، اور جب دعا کر چکو تو اٹھے ہوئے چہرے پر پھر لو۔'' (جامع ترمذی )۔
دعا کرتے وقت دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہونے چاہیں ، کسی کپڑے وغیرہ سے ڈانپے ہوئے نہ ہوں۔ فقہا ء لکھتے ہیں کہ جس طرح نماز امیں منہ چھپانا مکروہ ہے اسی طرح دعا میں بھی ہاتھوں کو کپڑے وغیرہ سے چھپانا مکروہ ہے۔ اگرچہ اﷲتعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے تاہم یہ بھی آداب دعا کی ایک شرط ہے ۔ عام مشاہرے میں آتا ہے کہ موسم سرما میں لوگ اپنے ہاتھوں کو چادر میں ڈھانپے رکھتے ہیں ۔ حجرت ذوالنون مصری نے دعا میں سردی کے سبب صرف ایک ہاتھ نکالا تھا ، انہیں الہام ہوا کہ تم نے ایک ہاتھ اٹھا یا ، ہم نے اس میں رکھ دیا جو رکھنا تھا ۔ اگر دوسرا بھی اٹھاتے اسے بھی بھردیتے ۔
دعا مانگتے وقت ہمیشہ گزشتہ گناہوں سے مغفرت اور موجودہ اور آئندہ زمانے کے گناہوں سے تحفظ کے سوا اور کچھ نہ مانگا جائے ۔ اور اﷲ تعالیٰ سے اچھی اطاعت وعبادت ، شریعت کے احکام پر عمل درآمد ، نافرمانیوں سے بچائو، اﷲ کی رضا پر راضی رہنا ، سختیوں پر صبر ، نعمتوں کی زیادتی اور ان کا شکر ۔اور اﷲ تعالیٰ سے ایمان کے ساتھ مرنے کی دعا کی جائے اور یہ دعا کی جائے کہ آخرت میں انبیاء و صد یقین و شہدا ء و صالحین کا ساتھ ملے ۔ ان تمام باتوں کو اپنی دعا کے اجزاء بنا لئے جائیں ۔
ایک حدیث مبارک ہے کہ جو شخص اپنے رب سے یہ دعاتین بار مانگتا ہے تو فرشتہ ندا کردیتا ہے مانگ کہ الرحم الرحمین تیسری جانب متوجہ ہوا ۔ غور کیجئے ، ہماری دعا کے اختتامی الفاظ ہی یہی ہوتے ہیں یعی '' برحمتک یا ارحم الرحمین'' دعا کرتے وقت ان امور کا بھی خاص طور پر خیا ل رکھنا چاہیے۔
اپنے رب کے حضور جب بھی دعا مانگیں تو خوب رخبت سے مانگیں ۔ دعا مانگتے وقت کوئی چیز ایسی نہ مانگیں جس میں گناہ ہو۔ اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں، دعا کے بعد اس کی قبولیت پر پورا یقین رکھنا چاہیے، جب کسی دنیاوی مجلس میں بیٹھے ہوں تو اﷲ اور اس کے رسول ۖ کا ذکر ، درود ، کلمہ طیبہ اور تسبیحات ضرور پرھیں ، کیونکی اﷲ کے ذکر سے مجلس کا خالی رہنا وبال ہے۔ ہمیشہ استغفار کی کثرت رکھیں کہ اس سے مشکلیں آسان ہوتی ہیں اور اس سے رزق میں بھی کشادگی ہوتی ہے۔ اس کی بدولت اﷲ ایسی جگہ سے روزی عطا کردیتا ہے جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا ک اس لئے اﷲتعالیٰ سے توبہ و استغفار میں قطعی دیر نہیں کرنی چاہے ۔ اﷲتعالیٰ سے بار بار تو بہ کی جائے۔اﷲ توبہ کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے۔ اور نہ کرنے والوں سے ناراض ہوتا ہے ، کیونکہ بندوں کا طریقہ یہی ہے کہ وہ اس خالق مطلق سے مانگیں اور اﷲتعالیٰ ان عا جز بندوں کو اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔
قرآن مجید علوم کا سر چشمہ ہے، اس میں چالیس سے بھی زائد مقامات پر دعائوں کا زکر آیا ہے۔ حضواکرم ۖ بھی یہی دعائیں اپنے رب کے حضور مانگا کرتے تھے اورا متیوں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ '' بے شک ، تیرا رب دعائوں کا سننے والا ہے۔''(سورہ ابراہیم آیت نمبر ٣٩)۔
اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائوں کو رد نہیں کرتا ، بلکی قبول کرتا ہے۔ فرمان الٰہی ہے '' اور تمہارے رب نے فرمایا ، مجھ سے دعا کر و، میں قبول کروںگا۔'' ہمیں چاہیے کہ ہم نہایت خوشوع اور عاجزی کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ دعا مانگا کریں کہ رب العزت ان دعائوں کو سنتا ہے۔
دین اسلام میں دعا کی اہمیت
Posted on Feb 25, 2011
سماجی رابطہ