ورپ میں پہلی مرتبہ جینین کی مدد سے کیے جانے والے طریقۂ علاج کی منظوری دی جانے والی ہے جو طب کے میدان میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
جین تھراپی میں مریض کے ڈی این اے کو تبدیل کرکے والدین سے بچوں میں منتقل ہونے والی پیدائشی بیماریوں کا علاج کیا جائے گا۔
یورپ کی دوا ساز ادارے نے نایاب جینیاتی بیماری کے لیے جس میں لوگ چکنائی کو مناسب طریقے سے ہضم نہیں کر پاتے یہ طریقہء علاج تجویز کیا ہے۔
یورپین کمیشن اب اس حوالےسے حتمی فیصلہ کرے گا۔
طریقہء علاج
جین تھراپی کا خیال بہت سادہ ہے۔ اگر کسی مریض کے جنیٹک کوڈ کے کسی حصے میں کوئی مسئلہ ہے تو جنیٹک کوڈ کے اس حصے کو تبدیل کر دیا جائے گا۔
تاہم درحقیقت یہ طریقہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ امریکہ میں ایک نوجوان اس طریقۂ علاج کے دوران ہلاک ہو گیا تھا جبکہ کئی دوسرے مریض لیوکیمیا کا شکار ہو گئے تھے۔
امریکہ اور یورپ میں تحقیقاتی لیبارٹریز کے علاوہ یہ طریقۂ علاج کہیں اور میّسر نہیں ہے۔
یورپی دوا ساز ادارے کی انسانوں کے لیے دوا بنانے والے کمیٹی جسم میں چربی کو روکنے والے حیاتی کیمیا کی کمی کے لیے گلیبرا (Glybera) تجویز کرتی ہے۔ دس لاکھ میں سے کسی ایک انسان میں یہ کمی پائی جاتی ہے۔
انسانی جسم میں اس جین کی کمی سے خون میں چکنائی بڑھ جاتی ہے، پیٹ میں درد رہتا ہے اور لبلبے پر جان لیوا سوزش ہو جاتی ہے۔
اس حالت سے نمٹنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انتہائی کم چکنائی والی خوراک لی جائے۔
تاہم جین تھراپی کا طریقۂ علاج صرف ان مریضوں میں تجویز کیا جاتا ہے جن میں لبلبے کی سوزش اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اسے خوراک کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
ادارے سے وابستہ ڈاکٹر تھامس سیلمنسن کا کہنا ہے کہ ’گیلبرا صرف ان لوگوں کو دی جاتی چاہیے جنہیں اس کی انتہائی ضرورت ہو۔‘
چین پہلا ملک ہے جہاں جین تھراپی پر سرکاری طور پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
جینین تھراپی کی منظوری کا انتظار
Posted on Jul 23, 2012
سماجی رابطہ