جنوبی ایشیائی ممالک میں خصوصاً ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے دامن میں واقع علاقوں میں جون سے ستمبر تک مون سون کے موسم میں لینڈ سلائیڈ یا مٹی کے تودے گرنا کوئی نئی چیز نہیں۔
تاہم سائنسدانوں کے مطابق حالیہ برسوں میں اس خطے میں لینڈ سلائیڈ کے واقعات اور ان سے ہونے والی تباہی میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شدید بارشیں، زلزلے اور انسانی سرگرمیاں اس کی بڑی وجوہات ہیں۔
ھارتی دارالحکومت نئی دلّی میں قائم سارک ڈیزاسٹر مینجمنٹ سینٹر سے وابستہ ارضیاتی تباہی کے ماہر مریگانکا گھاتک کا کہنا ہے کہ ’حالیہ کچھ عرصے میں مٹی کے تودے گرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے بھارت، نیپال، پاکستان کے شمالی علاقوں اور بنگلہ دیش کے کچھ حصوں میں لینڈ سلائیڈ میں تیزی دیکھی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہندو کش اور ہمالیہ کا خطہ اس عمل سے زیادہ متاثر ہوا ہے کیونکہ اس علاقے میں ارضیاتی صورتحال بہت اتھل پتھل کا شکار ہے‘۔
سارک ڈیزاسٹر مینجمنٹ سینٹر کے مطابق دو ہزار نو میں دنیا بھر میں جتنی لینڈ سلائیڈ ہوئی ان میں سے ساٹھ فیصد جنوبی ایشیا میں ہوئی جہاں اس کی وجہ سے اس سال دو سو اسّی افراد ہلاک ہوئے۔
ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق دو ہزار دس میں بھی کم و بیش یہی حالات رہے۔ رواں سال گزشتہ ماہ ہیں بنگلہ دیش میں چٹاگانگ کے علاقے میں تودے گرنے اور سیلاب سے ایک سو دس کے قریب افراد مارے گئے۔
اس واقعے سے چند دن قبل شمالی افغانستان میں زلزلے کے بعد ہونے والی لینڈ سلائیڈ سے اسّی افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں حکام اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوکش ہمالیہ خطے میں تودے گرنے کے واقعات میں اضافہ تو ہوا ہے لیکن اس حوالے سے سرکاری طور پر اعدادوشمار میسر نہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خطے میں تودے گرنے کے واقعات میں اضافے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے بارش میں اضافہ اور علاقے کی ارضیاتی صورتحال میں آنے والی تبدیلیاں سب سے عام ہیں۔
بھارتی حکومت کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کے سینیئر مشیر پروفیسر اشوک پچوری کا کہنا ہے کہ اس خطے میں مون سون میں ہونے والی بارشوں کا گراف اب اتنا واضح نہیں جتنا کہ پہلے ہوتا تھا۔
ان کے مطابق ’اچانک موسلادھار بارش کی وجہ سے ڈھلوانوں پر مٹی کی پکڑ کمزور پڑ جاتی ہے اور نتیجتاً ہم تودے گرنے کے زیادہ واقعات اور اس کے نتیجے میں زیادہ ہلاکتیں دیکھتے ہیں۔‘
پاکستان کے ارضیاتی سروے کے ڈائریکٹر جنرل عمران خان اشوک پچوری کے خیال سے متفق ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں آنے والے زلزلوں کا بھی ان واقعات سے گہرا تعلق ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جنوبی ایشیا میں ہندوکش ہمالیہ کا خطہ زیرِ زمین دباؤ کی وجہ سے بہت سے ارضیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ اس خطے میں بڑی فالٹ لائنز موجود ہیں اور ہر زلزلے سے پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر موجود پتھر اور دیگر ملبہ اپنی جگہ سے ہل جاتا ہے اور یہی اس خطے میں لینڈ سلائیڈ کی بنیادی وجہ ہے‘۔
سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی، سڑکوں کی تعمیر اور پہاڑی ڈھلوانوں پر کاشتکاری بھی تودے گرنے کے واقعات میں اضافے کی اہم وجوہات ہیں۔
ھارتی ماہر پروفیسر پچوری کے مطابق انفراسٹرکچر کی ترقی بھی بھارت میں تودے گرنے یا زمین کھسکنے کے واقعات کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ ’چمولی کے علاقے میں کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ وہاں سڑکوں کی تعمیر کا لینڈ سلائیڈ سے گہرا تعلق ہے‘۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ لینڈ سلائیڈ سے ہونے والے نقصانات سے بچاؤ کے لیے ڈھلوان سطحوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پاکستان کے ارضیاتی سروے کے ڈائریکٹر جنرل عمران خان کے مطابق ’ہم نے عطاآباد میں ایسی ہی تحقیق کی تھی اور چار ماہ قبل ہی لینڈ سلائیڈ کے بارے میں خبردار کر دیا تھا‘۔
عمران خان کے مطابق ’اسی تحقیق کے بعد حکومت نے اس علاقے سے ایک ہزار افراد کو منتقل کیا جہاں بعدازاں ایک بڑی لینڈ سلائیڈ ہوئی‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ علاقے میں لینڈ سلائیڈ پر قابو پانے کے لیے سب سے اہم قدم ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانا ہے اور اس کے لیے ماحول میں کاربن گیسوں میں اضافے پر قابو پانا نہایت ضروری ہے۔
جنوبی ایشیا میں لینڈ سلائیڈ میں اضافہ
Posted on Jul 19, 2012
سماجی رابطہ