کراچی کی سطح پر دکھائی دیتی لہروں کے نیچے ایک لہر ہے جو اوپر آنے کے لیے بے چین ہے، شہریوں کو یقین ہے کہ ایک دن ضرور یہ لہر سطح پر دکھائی دیتی لہروں پر چھا جائے گی۔ میں نے پچھلے تین روز کے دوران اس لہر کو دیکھا اور محسوس کیا ہے۔
سمندر کے ایک آلودہ کنارے پر واقع کراچی کا قدیم بیچ لگژری ہوٹل پیر سے اپنے پُر سکون معمول پر آ جائے گا۔ یہ ہوٹل اگر چہ شہر کے بڑے ہوٹلوں میں سے ایک ہے لیکن ان بڑے ہوٹلوں کی طرح مصروف نہیں رہتا البتہ پچھلے تین دن کے دوران اس ہوٹل میں جتنے لوگ آئے وہ کسی بھی ہوٹل کے لیے ایک ریکارڈ تعداد ہو گی۔
تین دن سے اس ہوٹل میں پانچواں کراچی لٹریچر فیسٹیول جاری تھا۔ یہ ادبی میلہ اب پاکستان کے سب سے بڑے ادبی میلوں میں ایک اور اہم ترین بن گیا ہے۔ اس بار اس میلے میں پاکستان سمیت دس سے زائد ملکوں کے دو سو سے زائد ادیب، دانشور اور فنکار شریک ہوئے۔
اس سال میلے کے شرکا نے سب سے زیادہ دلچسپی موسیقی اور رقص کے ساتھ فیسٹیول میں پہلی بار آنے والے مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن کی باتوں، پاکستان کو شدت پسندی اور امن و امان کی مخدوش صورت حال اور بلوچستان سے متعلق موضوعات میں ظاہر کی۔
راج موہن گاندھی نے ایک طرف جہاں تاریخ اور تاریخ نویسی کو درپیش رہنے والی رکاوٹوں پر روشنی ڈالی وہاں انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کو حالات بہت بنانے کے لیے صرف سیاستدانوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے خود بھی سرگرم ہونا چاہیے۔
انھوں نے اس مسئلے پر بھی زور دیا کہ اکثریت کو اقلیتوں کے تحفظ میں جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا اور لوگ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے آواز تو اٹھاتے ہیں لیکن ان کا انداز رسمی سا ہوتا ہے۔
یہ کے ایل ایف 2010 سے ہر سال فروری کے اوائل میں ہوتا ہے۔ اس کی بانی آکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید اور شریک بانی ڈاکٹر آصف اسلم فرخی ہیں۔ جو خود بھی ایک ممتاز ادیب، مصنف اور مترجم ہیں۔
تین روز کے دوران روزانہ 25 سے 30 اجلاس اور ایونٹ ہوئے۔ پانچ سے چھ کتابوں کی رونمائی ہوئی تھیٹر اور بچوں کے لیے سات سے آٹھ پروگرام ہوتے رہے اور دو درجن سے زائد ناشرین اور کتب فروش اداروں نے لوگوں کو کتابیں فروخت کیں۔
اس سال اس ادبی میلے کے شرکا کی تعداد 70 ہزار کے لگ بھگ تھی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 ہزار زائد تھی۔
مہاتما گاندھی کے پوتے اور مورخ ڈاکٹر راج موہن گاندھی اس سال میلے میں شریک ہونے والی سب سے اہم شخصیت تھے۔ انھوں نے نہ صرف کئی اجلاسوں سے خطاب کیا بلکہ ان کی کتاب ’پنجاب، اورنگزیب سے ماؤنٹ بیٹن تک ایک تاریخ‘ کی رونمائی بھی ہوئی۔ یہی کتاب شاید انگریزی کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بھی رہی ہو گی۔
عبداللہ حسین، کاملہ شمسی،عاصمہ جہانگیر، ضیا محی الدین،امر جلیل، محمد حنیف اور رضا علی عابدی سمیت اتنے پاکستان اور غیر ملکی ادیب شامل تھے کہ ان کے نام بھی نہیں گنوائے جا سکتے۔
اس سال کا ایک اور اہم ایونٹ انگریزی میں لکھی جانے والی فکشن اور نان فکشن کتابوں پر انعامات کا آغاز تھا۔ اس سال کا ’کے ایل ایف امن انعام‘ اکبر ایس احمد کی کتاب ’دی تھسل اینڈ دی ڈرون‘ کو، کے ایل ایف ایمبیسی آف فرانس کا انعام برائے فکشن عظمیٰ اسلم خان کے ناول ’تھنّر دین سکن‘ کو اور کے ایل ایف کوکا کولا ایوارڈ برائے نام فکشن ڈاکٹر اسامہ صدیقی کی کتاب ’پاکستانز ایکسپیرئنس ود فارمل لاء‘ کو دیا گیا۔
افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں کے علاوہ سب سے زیادہ بڑی تعداد راج موہن گاندھی، ضیا محی الدین، ناہید صدیقی کے رقص، محمد حنیف، کاملہ شمسی، داستان گوئی، اشیش نندی، افغانستان 2014، پاکستان میں ادب اور موسیقی، عطالحق قاسمی، مستنصر حسین اور عبداللہ حسین کے اجلاسوں میں شریک ہوئی اور راج موہن کے بعد سب سے زیادہ گونج عاصمہ جہانگیر کی تقریر کی تھی۔
اس سال فیسٹیول کا ایک اور اہم پہلو کہ فیسٹیول کے دوسرے روز کراچی میں ہڑتال باوجود لوگوں کی اتنی تعداد کی فیسٹیول میں آمد تھی کہ منتظمیں کے لیے بھی حیران کن اور غیر متوقع تھی۔
شاید اسی لیے اختتامی اجلاس میں فیسٹیول کی بانی امینہ سید نے کہا ’کل جب سورج نکلے گا تو یہاں نہ یہ کرسیاں ہوں گی، نہ یہ ٹینٹ ہوں گے اور نہ ہی ان کے نشان، لیکن وہ باتیں جو پچھلے تین دن کے دوران کی گئیں، وہ مباحث جو ہوئے، وہ خیالات جو سامنے آئے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر اکساتے رہیں گے۔ وہ کتابیں جو یہاں سے لوگوں کے ساتھ گئی ہیں وہ انھیں بہت سی باتوں کے بارے میں سوچنے پر گرمائیں گی۔
کیا کراچی بدل گیا ہے؟
Posted on Feb 10, 2014
سماجی رابطہ