مستقبل میں خلا نورد بننے والے چھ افراد ماسکو کے نواح میں واقع ایک گودام میں پانچ سو بیس دن پر مشتمل ایک ایسا سفر شروع کرنے والے ہیں جو مریخ تک جانے کی ہو بہو نقل ہو گا? دیکھا یہ جائے گا کہ وہ اس دوران شدید نفسیاتی دباؤ سے کیسے نمٹتے ہیں؟
کہتے ہیں کہ انسانی تہذیب سے لاکھوں میل دور خلا میں کوئی آپ کی چیخ و پکار نہیں سن سکتا?
لیکن روسی دارالحکومت ماسکو کے نواح میں واقع مذکورہ گودام کے بارے میں ایسا کہنا شاید درست نہ ہو اگرچہ اس گودام میں بھی ایک تجربے کے لیے نظام شمسی کے سفر کے دوران پیدا ہونے والی ایسی ہی گھٹن اور تنگی پیدا کی جائے گی جو کلاسٹروفوبیا کا شکار ہونے والی مریض کو محسوس ہوتی ہے?
تین جون سے شروع ہونے والے ’مریخ پانچ سو‘ نامی منصوبے کے تحت ’متوقع خلائی عملے‘ کے چھ ارکان مریخ کے پانچ سو بیس دن کے سفر کی نقل کریں گے?
اس تجرباتی سفر پر جانے والے چھ افراد میں تین روسی، ایک چینی، ایک فرانسیسی اور ایک اطالوی شہری شامل ہیں? سفر کے دوران یہ لوگ اپنے روز مرہ کے معمولات اور کام اسی طرح سے انجام دیں گے جیسے حقیقی خلائی سفر پر جانے والے خلا باز انجام دیتے ہیں?
یہ لوگ دن میں آٹھ گھنٹے سائنسی تجربات میں گزاریں گے جب کہ ان کے پاس تفریح اور سونے کے لیے بھی آٹھ، آٹھ گھنٹے کا وقت ہوگا?
یورپی خلائی ایجنسی اور روس کے بائیو میڈیکل مسائل کے ادارے نے امید ظاہر کی ہے کہ جہاں اس منصوبے سے اصل مشن کی کارکردگی کے بارے میں اندازہ لگانا ممکن ہوگا وہیں سب سے اہم تجزیہ اس بات کا ہو گا کہ ان افراد پر اس سفر کا کیا نفسیاتی اثر ہوگا?
اس تجربے میں شامل عملے کی نگرانی کے لیے چوبیس گھنٹے کیمرے کام کریں گے تاہم عملے اور مشن کنٹرول کے درمیان رابطے میں بیس منٹ کا فرق آئے گا تاکہ خلا سے زمین تک سگنل پہنچنے کی مدت جیسا احساس برقرار رہے?
ساڑھے پانچ سو مکعب میٹر بڑے سیمولیٹر میں رہائش پذیر ان افراد کو ٹیلیفون، انٹرنیٹ یا قدرتی روشنی تک رسائی نہیں ہوگی اور وہ نہ صرف ری سائیکلڈ ہوا میں سانس لیں گے بلکہ انہیں دس دن میں ایک بار نہانے کی اجازت ہوگی? تاہم وہ بے وزنی کی کیفیت میں نہیں رہیں گے?
ماہرین کے مطابق ان حالات میں نہ صرف عملے کے ارکان کی ذہنی حالت اور ان کی ایک گروہ میں رہنے کی صلاحیت کھل کر سامنے آئے گی?
خلا کا سفر پاپ کلچر کا اہم حصہ رہا ہے? چاہے وہ سنہ 2001 میں سٹینلے کیوبرک کی ’سپیس اوڈیسی‘ ہو یا آندرے تارکووسکی کی سولیرس، ڈنکن جونز کی ایوارڈ یافتہ سائنس فکشن فلم مون ہو یا جونز کے والد ڈیوڈ بوئی کےگانے ’سپیس اوڈیٹی‘ سب ہی میں تنہائی اور دوسروں سے کٹ جانے کے خیالات کی ترویج کے لیے خلائی سفر کے استعارے کو استعمال کیا گیا ہے?
لیکن جہاں آرٹ اس تجربے کی بہت روشن تصویر پیش کرتا ہے وہیں یہ پروگرام چلانے والے سائنسدانوں کے نزدیک حقیقی زندگی اس سے کہیں مختلف ہوگی?
یورپ کے خلائی تحقیق اور ٹیکنالوجی کے مرکز میں ’لائف سائنس‘ کے شعبے کے سربراہ پیٹرک سنڈ بلاڈ کا کہنا ہے کہ اس تجربے میں شامل افراد کا انتخاب دیکھ بھال کر کیا گیا ہے اور اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ وہ مضبوط اعصاب کے مالک اور مشن کا سامنا کرنے کے لیے پرعزم ہوں?
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس مشن سے حاصل ہونے والی معلومات نہ صرف مریخ کے سفر کے حوالے سے انتہائی اہم ہوں گی بلکہ ان سے انسانی نفسیات کو جاننے میں بھی مدد ملے گی? پیٹرک سنڈ بلاڈ کے مطابق اس منصوبے کی اصل کامیابی یہ ہے کہ ہم وہ معلومات بھی حاصل کر سکیں گے جو کسی دیگر طریقے سے ملنا بہت مشکل تھیں?’ہم چوبیس گھنٹے ان کی نگرانی کر سکتے ہیں اور یہ نگرانی کسی بھی طرح کے دوسرے حالات میں کرنا بہت مشکل ہوتا‘?
اس بارے میں تو مشکل سے ہی کسی کو شک ہوگا کہ اس مشن میں شریک افراد کو شدید دباؤ کا سامنا ہوگا?
گلاسگو یونیورسٹی کے معاشرتی نفسیات دان پروفیسر پیڈی او ڈونل اس تجربے پر مخمصے کا شکار ہیں? ان کا کہنا ہے کہ ’اس مشن کا سب سے اہم نقطہ مشن کے آغاز کے چھ سے آٹھ ماہ بعد آئے گا جب عملے کے درمیان پیدا ہونے والا ممکنہ تناؤ تنازعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے‘?
ان کا کہنا ہے کہ مشن کے عملے کو درپیش بڑے خطرات میں بوریت، عملے کے درمیان ایسے مثبت یا منفی جذباتی تعلق کی تشکیل جس سے ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں متاثر ہوں اور سب سے خطرناک عملے کے ارکان کی معاشرتی گروہوں میں تقسیم ہے?
پروفیسر پیڈی او ڈونل کا کہنا ہے کہ ’ان سب سے نمٹنے کا طریقہ ایک کھلے ذہن کے رہنما کی موجودگی، کام کی سادہ تقسیم اور سخت نظم و ضبط ہے‘? ان کا ماننا ہے کہ اپنے چاہنے والوں سے علیحدگی عملے کے ارکان کے لیے شدید نفسیاتی دباؤ کا باعث ہوگی?
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو عوامل ان افراد کے حق میں جائیں گے? ایک تو یہ کہ عملے کے ارکان سائنسدان ہیں جو عموماً ز
مریخ کا سفر اور تخیل کی پرواز
Posted on Feb 25, 2011
سماجی رابطہ