نامی گرامی کوہ پیماؤں نے اپنے تجربات کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہمالیہ کے اطراف بسنے والے کاشت کار گھرانے بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ اپا شیرپا نامی ایک نیپالی کوہ پیما کا کہنا ہے کہ وہ ماؤنٹ ایورسٹ پر برف کی کمی سے خاصے پریشان ہوئے ہیں۔
اپا شیرپا ریکارڈ 21 بار دنیا کی اس بلند ترین چوٹی کو سر کرچکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل موسم سرما میں انہوں نے ماؤنٹ ایورسٹ پر کبھی بھی اتنی کم برف نہیں دیکھی۔’’ 1989ء میں جب میں نے پہلی بار ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کیا تو اس وقت وہاں خاصی برف تھی اور بشتر حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا مگر اب اس کا بیشتر حصہ سنگلاخ چٹان کی صورت میں رہ گیا ہے، جس کے ٹکڑے گرتے رہتے ہیں اور یہ کوہ پیماؤں کے لیے خاصی خطرناک بات ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ چٹانوں کے ٹوٹنےکے ساتھ ساتھ دوسری بڑی مشکل یہ بھی ہے کہ کوہ پیمائی والے نوکدار جوتوں کے ساتھ کم برف والی چوٹیوں کو سر کرنا بھی کسی خطرے سے خالی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر صورتحال یونہی رہی تو آنے والے کئی سالوں تک ماؤنٹ ایورسٹ کو شاید ہی کوئی سر نہ کرپائے۔ ’’ مستقبل میں کیا ہونے جارہا یہ تو میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر میں اپنے تجربے کی بنیاد پر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ماؤنٹ ایورسٹ بہت بدل چکا ہے۔‘‘
انہوں نے یہ باتیں نیپال اور تبت کی سرحد پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو دیے گئے تازہ انٹرویو میں کہیں۔51 سالہ اس کوہ پیما کو سپر شیرپا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اپا شیر نیپال میں بنیادی طور پر کسان تھے مگر 1985ء میں برف سے جمی ایک جھیل کے پگھلنے سے ان کا تمام اثاثہ ضائع ہوگیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے سیاحت اور کوہ پیمائی کو اپنا شوق و ذریعہ معاش بنا ڈالا۔ ان دنوں وہ 120 روزہ کلائمٹ سمارٹ سیلیبرٹی واک پر نکلے ہیں، جس میں دیگر مشہور کوہ پیما بھی ان کے ساتھ ہیں۔
کھٹمنڈو کےCentre for Integrated Mountain Development کی ایک رپورٹ کے مطابق نیپال میں برفیلی پہاڑی چوٹیوں کی چوڑائی میں 30 فیصد سے زائد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ہمالیہ طاس کے علاقوں میں رہنے والے ایک ارب سے زائد انسانوں کی زندگیاں متاثر ہوں گی۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے بلند ترین چوٹی بھی نہ بچ سکی
Posted on Feb 29, 2012
سماجی رابطہ