انگیلیکا براؤن جرائم کا کھوج لگانے والی ایک ایسی ماہر ہیں جو فنگر پرنٹس یا خون کے نشانات جیسے روایتی طریقوں کی بجائے جائے واردات سے ریکارڈ کی جانے والی آوازوں کا تجزیہ کرکے مجرموں کا کھوج لگاتی ہیں۔
جرمن یونیورسٹی آف ٹرائیرر کی 55 سالہ پروفیسر برائے صوتیات یعنی فونیٹکس اینگیلیکا براؤن کہتی ہیں: ’’ہر تفصیل اہم ہوتی ہے حتیٰ کہ پس منظر کا شور بھی۔‘‘ براؤن کو جرمنی کے علاوہ بیرون ملک بھی سنگین جرائم کا کھوج لگانے کے حوالے سے ماہر کی حیثیت حاصل ہے اور انہوں نے 2003ء میں پروفیسر کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا ہے۔ براؤن کہتی ہیں:’’ بعض اوقات ان تفصیلات کے تجزیے میں سرعت سے کام لینا پڑتا ہے۔‘‘
اغواء کی وارداتیں عام طور پر ایسے ہی معاملات کے زمرے میں آتی ہیں۔ براؤن کہتی ہیں: ’’ ایسے کیسز میں انسانی جان بچانے کا انحصار دراصل تفتیش کے دوران ایسی ہی باریک تفصیلات پر کا کھوج لگانے پر ہوتا ہے۔‘‘
انگیلیکا براؤن 1986ء سے 2000ء تک مغربی جرمنی کے تحقیقاتی اداروں سے وابستہ رہی ہیں جہاں وہ آواز کے ذریعے مجرموں کا کھوج لگانے کی ماہر تھیں۔ براؤن کہتی ہیں: ’’ اغوا کے مقدمات میں بظاہر معمولی تفصیلات بھی اہم ہوتی ہیں۔‘‘ کامیابیوں کے حوالے سے ان کے مشہور کیسز میں ایک جرمن ارب پتی جان فلپ ریمٹسما کے اغوا کا کیس بھی شامل ہے جسے 1996ء میں اغوا کیا گیا۔
پروفیسر براؤن کا کہنا ہے کہ ماہر صوتیات کے سننے کے صلاحیت خاص طرح سے تربیت یافتہ ہوتی ہے۔ مؤنشن گلاڈباخ شہر کے پولیس ترجمان ولی تھیویسن کا کہنا ہے کہ پولیس کے لیے فورنزک کی اہمیت بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘ انہوں نے ڈی این اے کے ساتھ ساتھ آوازوں کے تجزیے کو بھی اتنا ہی اہم قرار دیا ہے۔ تیھوسن کہتے ہیں پروفیسر براؤن ان ماہرین میں شامل ہیں جنہیں جرم ہونے کی صورت میں سب سے پہلے جائے واردات پر بلایا جاتا ہے۔
پروفیسر براؤن کا کہنا ہے: ’’آواز کے ذریعے عمر، جنس، اور قومیت کا پتہ چل جاتا ہے، بھلے بولنے والا سرگوشی میں بات کر رہا ہو یا اپنی آواز بدل کر بھی بولے۔‘‘ پروفیسر براؤن آوازوں کا تجزیہ خاص طور پر تیار کردہ اپنی لیبارٹری میں کرتی ہیں۔ براؤن کا کہنا ہے کہ اگر بولنے والے کا لہجہ اگر غیر ملکیوں جیسا ہو تو پھر پھر ایک مخصوص طریقے اور بولنے کے دوران کی جانے والی غلطیوں کے سبب اس فرد کی قومیت کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
آوازوں کے تجزیے کے لیے خصوصی کمپیوٹر سافٹ ویئر استعمال کیے جاتے ہیں جو یہ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ بولنے والا اونچے سروں میں بات کر رہا ہے یا دھیمے۔ یہ تجزیہ ایسی آوازوں میں بھی ممکن ہے جن کی کوالٹی زیادہ اچھی نہ ہو۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ کمپیوٹر سافٹ ویئر آواز کا مکمل تجزیہ نہیں کر سکتے۔
براؤن کہتی ہیں کہ ایسا کوئی کمپیوٹر نہیں ہے جو مجھے اس بات کا پتہ بتا سکے کہ بولنے والا دنیا کے کس خطے سے تعلق رکھتا ہے یا اس کی عمر کتنی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کے لیے انہیں اپنی مہارت سے کام لینا پڑتا ہے۔
مجرموں کا کھوج، آوازوں کے ذریعے
Posted on Sep 20, 2011
سماجی رابطہ