دنیا بھر کے شعری ادب میں جس پرندے کا سب سے زیادہ ذکر ہوا ہے ، وہ ہےبلبل، لیکن اب شاعروں اور صبح کی سیر پر جانے والے ان لوگوں کے لیے، جنہیں تازہ اور لطیف ہوا کے ساتھ بلبل کی شریں آواز سننے کو ملتی ہے، بری خبر یہ ہے کہ بلبل کی نسل تیزی سے ختم ہورہی ہے ۔
ایک تازہ جائزے کے مطابق خوبصورت آواز اور گانے میں شہرت رکھنے والے پرندے بلبل کی تعداد میں لگ بھگ91 فی صدتک کمی ہوچکی ہے۔ کمی کا یہ رجحان صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی اس کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔جنگلی حیات کے ماہرین کو خدشات ہے کہ اگر اس پرندے کو بچانے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو جلد ہی اس کی نسل دنیا سے غائب ہوسکتی ہے۔
پرندوں کے تحفظ سے متعلق برطانوی ادارے ’ُبی ٹی او‘ کے ایک مطالعاتی جائزے سے پتا چلا ہے کہ 1967ء اور 2007ء کے 40 برسوں کے دوران بلبلوں کی تعداد میں 90 فی صد سے زیادہ کمی ہوئی ہے ۔ 40 سال قبل جہاں ہر صبح باغوں میں10 بلبل اپنی آواز کا جادو جگاتے تھے، اب وہاں گانے کے لیے صرف ایک بلبل باقی رہ گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں موجود کسی بھی پرندے کی انتہائی تیز رفتاری سے نسل گھٹنے کا یہ ایک ریکارڈ ہے۔ماہرین کے مطابق صرف عام چڑیاں ہی ایسے پرندے ہیں جس کی نسل کی افزائش میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔
پرندوں کے تحفظ کے ادارے سے وابستہ ڈاکٹر کرس ہوسن کا کہنا ہے کہ بلبل کی نسل کو جس سنگین خطرے کا سامنا ہے اس کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں 40 سال قبل جہاں لوگوں کے کانوں میں 10 بلبلوں کی سریلی آوازیں اپنا جادو جگاتی تھیں، اب وہاں صرف ایک بلبل گیت سنانے کے لیےباقی رہ گیا ہے۔اور اکثر علاقے اس سریلے پرندے سے تقریباً خالی ہوچکے ہیں۔
برطانیہ کے دیہی علاقوں میں جہاں موسم بہار اور گرمیوں میں بڑی تعداد میں یہ ننھا سا سریلا پرندہ درختوں کی ڈالیوں اور پھولوں کے آس پاس بڑی تعداد میں دکھائی دیتا تھا، اب خال خال ہی نظر آتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پرندے کی نسل کو سب سے زیادہ نقصان ہرنوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے پہنچ رہاہے کیونکہ ایسے چھوٹے اور نرم و نازک پودے، جن پر بلبل اپنا گھونسلہ بناتا ہے، ہرنوں کی مرغوب غذا ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلبل کی طرح دو اور خوش گلو اور سریلے پرندوں، تیتر اور کوئل کی نسل کو بھی دنیا سے ختم ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
نغمہ بلبل اب قصہ ماضی بننے کو ہے
Posted on Feb 25, 2011
سماجی رابطہ