ابھی تک یہ بتانا ممکن نہیں تھا کہ کون شخص اگلے کچھ عرصے بعد دورہء قلب یا فالج کا شکار ہو گا۔ لیکن اب ڈاکٹروں کے لیے یہ ممکن ہو جانے کی امید ہے، کیونکہ وہ خون کی رگوں کو بہت اچھی طرح سے دیکھ سکیں گے۔
صنعتی ممالک میں قریب ہر دوسرا شخص دل کا دورہ پڑنے یا فالج کے حملے سے ہلاک ہو جاتا ہے۔ ان امراض کی وجوہات میں موٹاپا، شراب نوشی، ورزش نہ کرنا اور چکنائی کا زیادہ استعمال شامل ہیں۔
خون کی رگیں عام طور پر اندر سے بہت چکنی اور ہموار ہوتی ہیں۔ خون کے خلیات یا ذرے ان رگوں کی دیواروں سے چپکے بغیر بہت تیزی سے بہتے رہتے ہیں۔ اس طرح خون کے ذرات بہت تیزی سے آکسیجن کو جسم کے عضلات تک منتقل کرتے ہیں جہاں اس آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ اُس وقت تک اچھی طرح سے جاری رہتا ہے جب تک جسم میں کسی جگہ کوئی سوجن پیدا نہیں ہوتی۔ یہ سوجن خون کی رگوں کی دیواروں میں پیدا ہوتی ہے۔ سوجن کی وجہ بعض مخصوص قسم کے پروٹین یا لحمیات ہوتے ہیں، جنہیں Matrix- Metalloproteas یا MMPs کہا جاتا ہے۔
یہ لحمیات خون کی رگوں کی چکنی اندرونی تہہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس طرح خون کے سفید ذرات، جنہیں Lycozytes کہا جاتا ہے، ان رگوں میں داخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور وہاں مادے جمع کر کے رگوں کو تنگ بنا دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک شیطانی چکر شروع ہو جاتا ہے۔ جرمنی کے شہر میونسٹر کی یونیورسٹی کے میشائیل شیفر نے کہا: ’’انفیکشن کی وجہ سے مسلسل زیادہ Lycozytes خون کی رگوں میں داخل ہوتے رہتے ہیں، جن سے یہ رگیں اندر سے موٹی ہوتی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں عضلاتی خلیات بھی بہہ کر سوجن والی جگہ تک پہنچنے لگتے ہیں، جہاں وہ ایک ڈھکن سا بنا لیتے ہیں۔ اس ڈھکن کو ایم ایم پی توڑ پھوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح خون کی رگ کی اندرونی دیوار پھٹ سکتی ہے اور پھر دل کا دورہ پڑتا ہے۔ اگر یہ سب کچھ دماغ کو خون پہنچانے والی کسی رگ میں ہوتا ہے تو پھر فالج کا حملہ ہوتا ہے۔‘‘
کسی کے بارے میں یہ کہنے کے لیے کہ اگلے چند برسوں میں اس کے اس قسم کے کسی مرض کا شکار ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہے، صرف یہ معلوم ہونا ہی کافی نہیں کہ وہ صحتمند غذا استعمال کرتا ہے یا نہیں یا وہ ورزش پر دھیان دیتا ہے، یا یہ کہ اس کا وزن کتنا ہے اور وہ سگریٹ پیتا ہے یا نہیں، بلکہ ڈاکٹروں کو یہ پتہ ہونا چاہیے کہ اُس کی رگوں میں خطرناک سوجن پیدا ہو چکی ہے یا نہیں۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹر مریض کے جسم کے اندر جھانک سکیں۔
آج بھی ڈاکٹر مریض کے جسم میں بہت سی چیزیں دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایک ریڈیو ایکٹو مادے کا انجکشن دے کر خون کی رگوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر یہ پتہ چلا سکتے ہیں کہ سوجن کی وجہ سے خون کی رگیں تنگ تو نہیں ہو چکی ہیں۔ لیکن اس قسم کی سوجن ہمیشہ ہی خون کی رگوں کے تنگ ہو جانے کا سبب نہیں بنتی۔ شیفر نے کہا کہ سوجن کے غیر فعال ہوجانے کے بعد صرف رگ کے تنگ ہو جانے کا علم ہونا کسی فوری خطرے کی نشان دہی کے لیے کافی نہیں ہے۔
اس کا حل نینو ٹیکنالوجی نے پیش کیا ہے۔ سائنسدانوں نے ایسے سالمات یا مولیکیولز بنا لیے ہیں، جو سوجن پیدا کرنے والے لحمیات سے چپک جاتے ہیں۔ یہ سالمے ٹریسر کہلاتے ہیں کیونکہ وہ کمپیوٹر ٹومو گرافی کے دوران سوجن کو دکھا سکتے ہیں۔ مردہ چوہوں میں رگوں کی اس سوجن کو دیکھنے میں کامیابی ہو چکی ہے۔ اگر اس تکنیک کو انسانوں کے لیے بھی استعمال کرنے میں کامیابی ہو سکے، تو ہر مریض کے دورہء قلب کے خطرے کا پیشگی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نانو ٹینالوجی کے اور بھی استعمالات اور فوائد ہیں، مثلاً سرطان یا مرکزی اعصابی نظام کے امراض، جنہیں صرف پیشگی تشخیص کے نتیجے ہی میں روکا جا سکتا ہے۔
نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے فالج کی پیشگی اطلاع کا امکان
Posted on Nov 01, 2011
سماجی رابطہ