بیماریوں سے بچاؤ اور روک تھام کے امریکی ادارے سی ڈی سی نے گزشتہ ہفتے کے اس مطالعاتی جائزے کے نتائج کو رد کر دیا ہے، جس کے مطابق کوئی ایسا ثبوت نہیں مل سکا کہ نمک کا استعمال کم کر دینے سے دل کے مرض کا خطرہ کم ہو جاتا ہے یا قبل از وقت موت کا خطرہ ٹل سکتا ہے۔
’نمک آپ کے لیے پھر بھی برا ہے‘، یہ ڈاکٹر تھومس فارلے نے کہا جو نیویارک کے ہیلتھ کمشنر بھی ہیں۔ نیویارک شہر میں 5 سال کے دوران ریستورانوں اور ڈبوں میں بند کھانوں کی اشیاء میں نمک کی مقدار میں 25 فیصد کی کمی کرنے کا منصوبہ ہے۔
صحت کے شعبے کے بہت سے ماہرین فارلے سے اتفاق کرتے ہیں کہ نمک کا زیادہ استعمال صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس کی کم مقدار سے ہائی بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی کم ہو سکتا ہے۔ 1970ء سے امریکہ میں نمک کا استعمال مسلسل بڑھتا چلا گیا ہے اور آج کل امریکی اس سے دگنی مقدار میں نمک استعمال کر رہے ہیں، جتنی کہ عام طور پر کرنی چاہیے۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے ادارے کی تحقیق کے مطابق وہ کھانا، جس میں نمک کی مقدار زیادہ ہو اور پوٹاشیم کم، خطرناک ہے۔ ماہرین نے 15 سال کی طویل تحقیق میں 12000 سے زائد لوگوں پر نمک اور پوٹاشیم کے اثرات دیکھے۔ اس تحقیق کے اختتام تک 2270 لوگوں کی موت واقع ہو چکی تھی، جن میں سے 825 لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے اور 433 لوگ بلڈ کلاٹس اور سٹروکس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
صارفین اگر روز مرہ کی خوراک میں تازہ پھل اور سبزیاں جیسے کہ پالک، انگور، گاجر اور شکرقندی اور کم چکنائی والا دودھ اور دہی کا استعمال کریں تو پوٹاشیم کی سطح میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے ادارے کی ڈاکٹر کوکلینا نے تحقیق کے بارے میں بتایا کہ خوراک میں پوٹاشیم کی زیادہ مقدار نمک کے اثرات کو کم کرتی ہے۔ اگر لوگ ریستورانوں میں جا کر زیادہ کھائیں گے تو یہ توازن خراب ہو جائے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ سوڈیم بلڈ پریشر میں اضافہ کرتا ہے جبکہ پوٹاشیم اس کو نیچے لے آتا ہے۔ اور اگر نمک جسم میں پانی کو برقرار رکھتا ہے، تو پوٹاشیم اس سے چھٹکارا دلاتا ہے۔ کوکلینا کا کہنا ہے کہ صرف نمک پر توجہ مرکوز نہیں رکھنی چاہیے، بلکہ دونوں کے درمیان توازن رکھنا چاہیے۔
نمک کا استعمال ہر حال میں نقصان دہ ہے
Posted on Jul 13, 2011
سماجی رابطہ