ہماری دھرتی کا تو ہم انسانوں کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے لیکن ہمارا اس کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ (WI) ہر سال قدرتی ماحول پر انسانوں کے اثرات کو جانچتا اور اُن کا تجزیہ کرتا ہے۔
1974ء میں اپنے قیام کے بعد سے یہ ادارہ مسلسل اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ وسائل کا بری طرح سے استحصال کیا جا رہا ہے، ماحولیاتی نظام تباہ ہو رہے ہیں اور انسان کی بقا کے لیے ضروری قدرتی ماحول کی تباہی کا عمل مسلسل جاری ہے۔
ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ کے محققین نے اپنی تازہ رپورٹ میں یہ سوال پوچھا ہے:’’کیا پائیداریت ابھی بھی ممکن ہے؟‘‘ اس ادارے کے ڈائریکٹر رابرٹ اینگل مین اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں:’’انسان کو خوش امید یا مایوس نہیں بلکہ سیدھے سیدھے حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ حقیقی پائیداری کی منزل سے ابھی ہم کوسوں دور ہیں۔‘‘
اینگل مین اور اُن کی ٹیم نے اِس رپورٹ میں خاص طور پر سیاسی ناکامیوں کی فہرست درج کر دی ہے۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں اینگل مان نے کہا:’’موسمیاتی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ ایسے کسی بین الاقوامی سمجھوتے کے کوئی آثار نہیں ہیں، جس کی مدد سے دنیا بھر میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کو کم کیا جا سکتا ہو اور زمینی درجہء حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھنے کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہو۔ الٹا ایسا لگ رہا ہے کہ صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں درجہء حرارت میں چار ڈگری سینٹی گریڈ تک کا اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
ایسے میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا پائیداریت کی حامل زندگی واقعی ناممکن ہے؟ اینگل مین کہتے ہیں کہ ایسی زندگی بلاشبہ ممکن ضرور ہے لیکن اس کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہو گی۔
اینگل مین اور اُن کی ٹیم پائیداریت کی مبہم اصطلاح پر جاری بین الاقوامی بحث مباحثے کو بھی ناقدانہ نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اینگل مین کہتے ہیں:’’جب ہم پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کی بات کرتے ہیں تو یہ درحقیقت ایسے اقدامات ہونے چاہییں، جو محض ترقی میں اپنا کردار ادا نہ کریں بلکہ درحقیقت دیرپا ہوں۔ تاہم جب اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے سمجھوتے کیے جائیں تو پھر یہ بات بھی واضح طور پر کہی جانی چاہیے۔ اسی طرح ترقی کو داؤ پر لگا کر حاصل کی جانے والی پائیداریت کو بھی واضح کیا جانا چاہیے۔‘‘
اینگل مین اور اُن کے ساتھیوں کے مطابق پائیداریت کے بغیر ہماری دھرتی رہنے کے قابل ہی نہیں رہے گی اور پائیداریت کے لیے کچھ نہ کچھ تو قربان کرنا ہی پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ سمجھوتے بھی کرنا ہی پڑتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ممکنہ طور پر تمام ہی ممالک اقتصادی طور پر بھی ترقی کریں اور ماحولیاتی پائیداریت کی منزل بھی حاصل کر لیں۔
ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹیں دنیا بھر کے محققین کے مطالعے میں آتی ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ترقیاتی پالیسیوں کے جرمن انسٹیٹیوٹ (DIE) کے ڈائریکٹر ڈِرک میسمر نے کہا کہ محققین کے ہاں ان رپورٹوں کی ساکھ بہت اچھی ہے:’’جب امریکا میں پائیداریت کے حوالے سے بڑے تحقیقی اداروں کے بارے میں استفسار کیا جاتا ہے، جو مشاورت بھی فراہم کرتے ہوں تو ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ اور ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ ہی کے نام لیے جاتے ہیں۔‘‘
ڈِرک میسمر کہتے ہیں کہ ان اداروں کی رپورٹیں بنیادی طور پر فیصلہ ساز شخصیات اور اداروں یا پھر لابی گروپوں کے لیے ہوتی ہیں لیکن درحقیقت ہر شہری کو ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں یہ رپورٹیں بیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو کر شائع ہوتی ہیں۔
پائیدار ترقی: ورلڈ واچ انسٹیٹیوٹ کی نئی رپورٹ
Posted on Apr 23, 2013
سماجی رابطہ