امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کی جانب سے مبینہ طور پر ٹیلی فون کمپنی ورائزن کے صارفین کے فون ٹیپ کرنے کی خبر کے فوراً بعد یہ رپورٹیں بھی منظر عام پر آنے لگی ہیں کہ ایپل، گوگل اور فیس بک جیسی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں بھی اسے پچھلے دروازے سے رسائی حاصل ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کو موصول دستاویزات کے مطابق پرزم نامی پروگرام کے تحت نو انٹرنیٹ کمپنیوں کے سرورز سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ لیک ہونے والی دستاویزات ایک ناراض جاسوس نے فراہم کی ہیں۔ ان کے مطابق دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ میں سلامتی کی قومی ایجنسی این ایس اے کو پرزم نامی اس پروجیکٹ کے تحت ای میل، چیٹ لاگ، جمع کیے ہوئے اعدادوشمار، صوتی ٹریفک، فائل ٹرانسفر اور سماجی رابطے کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اس کا بنیادی مقصد دہشت گردی کا تدارک ہے لیکن جس پیمانے پر یہ کیا گیا ہے اس سے بڑے پیمانے پر شہریوں کے ڈیٹا بھی نگرانی کے احاطے میں آگئے ہیں۔
اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ این ایس اے گوگل پر کی جانے والی کسی بھی سرچ کی براہِ راست نگرانی بھی کر سکتا ہے۔
ان کمپنیوں نے فوری طور پر اس بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے اپنے سرورز تک ’براہِ راست رسائی‘ کی سہولت فراہم نہیں کی ہے جس سے یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا انھوں نے این ایس اے یا کسی دوسری ایجنسی کو جو آزادانہ طور پر ٹریفک کی جانچ کرتی ہیں، درحقیقت بالواسطہ طور پر رسائی فراہم کی ہے۔
ڈیجیٹل فورنزک کے ماہر پروفیسر پیٹر سومر کا کہنا ہے کہ لیک ہونے والی دستاویزات اور کمپنیوں کی تردید سے یہ واضح ہے کہ محدود سطح پر ہی سہی، ڈیٹا تک رسائی فراہم کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا: ’یہ پیچھے کے دروازے سے زیادہ بلی کی راہداری ہو سکتی ہے۔ جاسوسوں کو ان کمپنیوں کے سرورز سے کسی معلوم ہدف کے اعدادوشمار تک رسائی فراہم کی جاسکتی ہے۔ بصورت دیگر یہ کورٹ آرڈر حاصل کر کے مطلوبہ معلومات کسی ہارڈ ڈرائیو میں حاصل کی جا سکتی ہے۔‘
انھوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ آزادانہ طور پر حکام کے ذریعے اس پر عمل کرنے کا تصور خارج از امکان ہے۔
انھوں نے کہا: ’وہ انٹرنٹ وائر پر کوئی جادوئی ڈبہ نہیں لگا سکتے کیونکہ جی میل اور فیس بک کو کسی غلط آدمی سے محفوظ رکھنے کے لیے انکرپٹڈ رکھا گیا ہے اور اس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس کمپنی کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا: ’ہمیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک کے متوسطہ طبقے میں پیدا کوئی شخص کس طرح شدت پسند ہو سکتا ہے اور کس طرح کوئی سافٹ ویئر اس کی نشاندہی کر سکتا ہے؟‘
سیکوریٹی ماہر پروفیسر ایلن وڈورڈ کے مطابق حکام کا کسی انٹرنیٹ ٹریفک پر نظر رکھنا کوئی نئی چیز نہیں بلکہ معمول کی بات ہے۔
انھوں نے کہا: ’ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیش نظر سیکوریٹی ایجنسیوں کو بیرونی بات چیت اور سگنلوں کو جانچنے کا حق حاصل ہے اور انٹلیجنس والے برسوں سے ایسا کرتے آ رہے ہیں۔‘
’بہت سے انٹرنیٹ ٹریفک یورپ اور امریکہ کے راستے دنیا بھر میں جاتے ہیں اور یہ جائے حیرت نہیں کہ وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ قابل ذکر بات یہ ہے حکام اپنے شہری کے بجائے غیرملکیوں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں دلچسپی دکھا رہے ہیں۔
قومی انٹلی جنس کے ڈائرکٹر جیمز کلیپر بھی اس بات کے حامی ہیں اور انھوں نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔
پروفیسر وڈورڈ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ ٹریفک کا عمومی تجزیہ کوئی ضروری نہیں کہ پرائیویسی کا مسئلہ ہو۔
انھوں نے کہا: ’یہ سڑک پر لگے کیمرے کی طرح ہے۔ جب آپ کو کوئی مسئلہ نظر آتا ہے جیسے کوئی حادثہ تو آپ اسے زوم کرکے دیکھتے ہیں لیکن اس خاص گاڑی کے رجسٹریشن تک رسائی حاصل کرنے کے لیے آپ کو عدالت سے احکامات لینا پڑتے ہیں۔‘
ساری دنیا کی حکومتیں اپنی پولیس اور انٹیلی جنس کے لیے انٹرنیٹ پر ہونے والی گفتگو کے حصول میں دلچسپی رکھتی ہیں، اور انٹرنیٹ کمیونیکیشن کے بدلتے پس منظر میں انھیں نئے قوانین کی ضرورت ہے۔
اس تازہ انکشاف کے بعد انٹرنٹ کمیونیکیشن تک رسائی اور پرائیویسی کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
پرزم: معلومات تک رسائی کس حد تک؟
Posted on Jun 10, 2013
سماجی رابطہ