کپاس کے بارے میں بین الاقوامی تحقیقی ادارے انٹرنیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی (ICAC) کی جانب سے ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر یوسف ظفرکو”سائنٹسٹ آف دی ایئر2012“ قرار دیا گیا ہے۔
فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر یوسف ظفر پہلے پاکستانی سائنسدان ہیں جنہیں اس ایوارڈ سے نوازا جا رہا ہے۔ ایوارڈ کی تقریب رواں برس اکتوبر میں سوئزلینڈ میں ہو گی جہاں دنیا بھر سے ٹیکسٹائل اور کاٹن کے شعبے سے وابستہ اہم افراد شریک ہوں گے۔
انٹرنیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی کے مطابق ڈاکٹر ظفر اور ان کی ٹیم نے کپاس پر اثر انداز ہونے والے وائرس پر دنیا بھر میں اب تک کی جانے والی تحقیقات میں نہایت اہم اور نمایاں ترین کردار ادا کیا ہے۔ ICAC کے مطابق اس شعبے میں 90% مقالے ڈاکٹر ظفر اور ان کی ٹیم کی جانب سے لکھے گئے ہیں۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں ایگری بائیو ٹیکنالوجی ڈویژن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر یوسف ظفر کپاس کی پیداوار میں اضافے اور اس کی فصل کو مختلف بیماریوں سے بچانے کے لیے گزشتہ کئی برسوں سے تحقیق میں مصروف ہیں۔ ان کی تحقیق کے نتائج کی روشنی میں کپاس پیدا کرنے والے کئی ممالک مستفید ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر یوسف کے 110 سے زائد تحقیقی مقالاجات قومی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔
بات چیت کے دوران ڈاکٹر یوسف نے بتایا کہ انٹرنیشنل کاٹن ایڈوائزری کمیٹی ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جس سے کپاس پیدا کرنے والے 54 ممالک وابستہ ہیں۔ پاکستان بھی اس کا ایک رکن ملک ہے۔ ڈاکٹر یوسف ظفر مزید بتاتے ہیں: ’’انہوں نے 2009ء سے یہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ جو دنیا میں کپاس کے حوالے سے مجموعی طور پر اچھی تحقیق کر رہا ہے اسے کاٹن ریسرچ کے حوالے سے بہترین محقق کا ایوارڈ دیں۔ اس سے قبل یہ ایوارڈ دو امریکی اور دو ہندوستانی سائنسدانوں کو مل چکے ہیں ۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پاکستانی کو کپاس پر بہترین ریسرچ کرنے پر یہ ایوارڈ مل رہا ہے۔‘‘
دنیا بھر میں کپاس کی پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ سب سے زیادہ خام کپاس یہاں سے ہی دنیا بھر کو درآمد کی جاتی ہے۔ کپاس کے صارفین کی مجموعی تعداد کے حساب سے پاکستان چوتھے نمبر پر جبکہ سوتی دھاگہ درآمد کرنے والا پہلا اور سب سے بڑا ملک ہے۔ ڈاکٹر ظفر کے مطابق پاکستان کی سالانہ 20 بلین ڈالرز کی برآمدات میں سے 15 بلین ڈالرز کپاس اور اس سے وابستہ مصنوعات کی برآمدات سے حاصل ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس کی ترقی اور بہتری کے لئے کئی مفید تحقیات کی ہیں: ’’1992-93 میں پاکستان میں کاٹن پر وائرس کا شدید حملہ ہوا تھا۔ یہ بہت منفرد وائرس تھا اور صرف پاکستان میں تھا۔ اس کی وجہ سے کاٹن کی پیداوار آدھی رہ گئی تھی۔ ہم نے اس وائرس پر تحقیق کے بعد اس کی پہچان کی اور اس سے بچاؤ کے طریقے نکالے۔ ہم نے ایک بہت بڑا گروپ بنایا جس نے اس کے ہر پہلو پر تحقیق کی۔ اس گروپ نے بہت کام کیا اور دنیا میں بہت نام کمایا۔ اس حوالے سے کئی پیپرز شائع کیے، نیا علم اور نئی ٹیکنالوجی دی۔‘‘
پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں بہتری کے لیے اپنے نئے منصوبے کے حوالے سے ڈاکٹر ظفر نے بتایا کہ ان کی ٹیم پاکستان میں ایسی کپاس کی کاشت پر تحقیق کر رہی ہے جس میں وائرس سے مدافعت کی مکمل صلاحیت ہو گی: ’’اس وقت ہماری ٹیم بی جی کاٹن پر بہت اچھا کام کر رہی ہے۔ یہ ایسی کپاس ہے جس پر کیڑے حملہ نہ کر سکیں، جس کی فصل میں گھاس پھونس پیدا نہ اور جس کا ریشہ بہت اچھا ہو۔ بائیو سیفٹی کے حوالے سے ایک سو پچپن کیسز حکومت کو بھیجے گئے ہیں ان میں سے 47 فیصد منظور ہوئے اور وہ ہماری ٹیم کے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے جیناتی انجینیئرنگ پر بہت کام کیا ہے۔‘‘
واضع رہے کہ ڈاکٹر ظفر کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں 2001ء میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے انہیں بہترین سائنس دان کا اعزاز دیا تھا۔ 2004میں انہیں اس وقت کے صدر پاکستان کی جانب سے پاکستان کے اعلٰی ترین سول اعزاز ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا تھا۔ اس کے علاہ انہیں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جانب سے ایگری بائیو ٹیکنالوجی میں بہترین محقق کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔
سال کے بہترین سائنسدان کا اعزاز پاکستانی سائنسدان کے نام
Posted on May 12, 2012
سماجی رابطہ