شمالی افریقہ میں شمسی توانائی کے پلانٹس سے یورپ کی پندرہ فیصد توانائی کی طلب پوری کرنے کا منصوبہ مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔
ڈیزیرٹک نامی اس منصوبے کے تحت زیرِ سمندر کیبل کے ذریعے شمالی افریقہ سے توانائی کو یورپ پہنچایا جانا تھا۔
تاہم حالیہ دنوں میں اس منصوبے کی حمایت میں دو صنعتی ادارے اس منصوبے سے پیچھے ہٹ گئے اور سپین کی حکومت نے شمسی توانائی کے پلانٹس مراکش میں بنائے جانے پر اعتراض کیا ہے۔
ڈیزیرٹک منصوبے کا آغاز سنہ دو ہزار نو میں ہوا تھا اور اس کا بجٹ چار سو بلین یوروز تھا۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس منصوبے سے سنہ دو ہزار پچاس تک سوا سو گیگا واٹس بجلی پیدا کی جاسکے گی۔
بجلی کی اس پیداوار سے مقامی طلب پوری کی جا سکے گی اور باقی بحیرہ روم کے ذریعے یورپ لائی جا سکے گی لیکن اس منصوبے کے تین سال بعد خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور سیمنز اور بوش اس منصوبے سے علیحدہ ہو گئے ہیں۔
افریقی شمسی توانائی کے ذخائر کے ماہر آسٹریا میں لنز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ڈینیئل ایوک کا کہنا ہے کہ یہ بری خبر ہے۔ ’سیمنز اور بوش بڑی کمپنیاں ہیں اور اگر وہ اس منصوبے میں حصّہ نہیں لیتیں تو ڈیزیرٹک منصوبہ مشکل میں ہے۔‘
ڈیزیرٹک کے پہلے اقدامات میں مراکش میں تین شمسی توانائی کے پلانٹ بنانا تھا۔ اس سلسلے میں ایک معاہدے پر سپین اور اٹلی سمیت کئی ممالک نے دستخط کرنے تھے لیکن سپین نے اعتراضات اٹھائے۔
جرمنی کی پارلیمنٹ میں گرین پارٹی کے ممبر ہانس جوزف فیل کا کہنا ہے کہ ڈیزیرٹک منصوبہ اس لیے مشکلات کا شکار ہوا کیونکہ اس میں ٹیکس دہندگان کی ایک بہت بڑی رقم لگنی تھی۔
ڈیزیرٹک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے مسئلے ہیں اور اس منصوبے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
سپین کے موقف کے بارے میں انہوں نے کہا ’ہم اس معاہدے کی بات کر رہے ہیں جو حکومتوں کے درمیان ہونا تھا۔ ڈیزیرٹک ان مذاکرات کا حصہ نہیں تھی۔ ہمیں کسی قسم کی فکر نہیں ہے۔‘
لیکن یوروسولر کے سربراہ پروفیسر پیٹر ڈروج ڈیزیرٹک کے ترجمان سے متفق نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں وہ وجہ ڈھونڈ رہے ہیں کہ یہ منصوبہ جاری رہے۔ یہ منصوبہ اصل مقصد کھو بیٹھا ہے اور ایک نئی سمت کی تلاش کی جا رہی ہے‘۔
شمسی توانائی پراجیکٹ مشکل میں
Posted on Nov 20, 2012
سماجی رابطہ