یورپ میں انسان کے بنائے ہوئے سب سے بڑے قدرتی پارک پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ برطانوی کاؤنٹی ایسیکس میں واقع والیسی جزیرے کو پندرہ سو ایکڑ کے دلدلی علاقے میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔
اس پارک میں پینتالیس لاکھ ٹن مٹی استعمال ہو گی جس کے لیے لندن کے نیچے سے اکیس کلومیٹر لمبی سرنگ کھودنے کے منصوبے سے نکلنے والی مٹی حاصل کی جائے گی۔
اس علاقے کو دلدلی زمین، ساحلی جھیل اور کیچڑ بھرے میدانوں میں منتقل کیا جائے گا تاکہ یہاں پرندے اور دوسرے جانور آ کر رہنا شروع کر دیں۔
پرندوں کے تحفظ کی رائل سوسائٹی کی زیرسرپرستی قائم ہونے والا یہ قدرتی پارک دو ہزار بیس تک مکمل ہو جائے گا اور اس پر پانچ کروڑ پاؤنڈ خرچ آئے گا۔
پارک ایک الگ منصوبے یعنی کراس ریل پروجیکٹ سے پیدا ہونے والی مٹی کا اچھا استعمال کر رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مشرقی اور مغربی لندن کو ملانے کے لیے دو سرنگیں بنائی گئی ہیں جن سے سوا کروڑ ٹن کے لگ بھگ مٹی نکلے گی۔ اس مٹی کا تین چوتھائی حصہ والیسی جزیرے میں صرف ہو گا۔
یہ اضافی مٹی جزیرے کی سطح بلند کرنے کے لیے استعمال کی جائے گی جو فی الوقت سمندر کی سطح سے سات فٹ اوپر ہے۔
اس علاقے میں صدحوں پرانے ساحل پر بنے ہوئے پشتوں نے سمندر کے پانی کو روک رکھا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہاں ماضی میں کھیتی باڑی کی جاتی تھی۔ لیکن دو ہزار چھ میں پشتے کا کچھ حصہ توڑ کر پانی کو اندر آنے دیا گیا۔ مزید حصے دو ہزار پندرہ کے بعد توڑے جائیں گے۔
رائل سوسائٹی کو امید ہے کہ اس قدرتی پارک میں کئی اقسام کے پرندے اور مرغابیاں آئیں گی۔
سوسائٹی نے کہا ہے کہ ساحلی پانیوں میں مختلف اقسام کی مچھلیاں بھی پھلیں پھولیں گی۔
سوسائٹی کے ڈائریکٹر پال فورکاسٹ کہتے ہیں: ’والیسی جزیرے کا منصوبہ اکیسویں صدی کی انجینیئرنگ اور تحفظِ حیات کا بے مثال نمونہ ہے۔‘
’اس کے تحت مختلف شراکت داریاں اکٹھی ہو کر ایک ایسا ماحول تخلیق کر رہی ہیں جو غائب ہو گیا تھا۔
تحفظ حیات کا بے مثال نمونہ
Posted on Sep 18, 2012
سماجی رابطہ