حال ہی میں عالمی ماحولیاتی کونسل IPCC نے توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کے مستقبل کے حوالے سے اپنی ایک خصوصی رپورٹ جاری کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ سائنسدانوں کی 120 رکنی ایک ٹیم کو یہ رپورٹ تیار کرنے میں تین سال لگے۔
جرمن دارالحکومت برلن سے جاری کی گئی اس رپورٹ میں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع سے استفادےکے حوالے سے مستقبل کے 160 مختلف امکانات کا ذکر کیا گیا ہے۔ SRREN نامی اس رپورٹ کے مصنفین میں جرمن پروفیسر اوٹمار ایڈن ہوفر بھی شامل ہیں، جو پوٹسڈام کے آب و ہوا پر تحقیق کے ادارے سے وابستہ ہیں اور جن کا خاص میدان موسمیاتی تبدیلیوں کی اقتصادیات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کا اور اُن کے ساتھیوں کا کام محض امکانات کی نشاندہی کرنا ہے لیکن آیا ان امکانات سے فائدہ بھی اٹھایا جائے گا، اس کا انحصار سیاسی فیصلوں پر ہو گا۔
پروفیسر ایڈن ہوفر بتاتے ہیں:’’دُنیا کی توانائی کی تقریباً 80 فیصد ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کی جا سکتی ہیں۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہے، جب تحفظ ماحول کی جرأت مندانہ پالیسیاں اختیار کی جائیں اور ساتھ ساتھ مزید بلند سیاسی اہداف مقرر کیے جائیں۔‘‘
دُنیا بھر میں ہوا، سورج، پانی یا زمین سے حاصل ہونے والے توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا باعث نہیں بنتے اور انہیں اپنانے والے ممالک توانائی کی درآمدات کے محتاج نہیں ہوتے۔ توانائی کے معدنی ذرائع کو چھوڑ کر اُن کی جگہ قابل تجدید ذرائع اپنانے پر لاگت کتنی آئے گی، اس بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ IPCC کی رپورٹ میں لاگت کے متنازعہ سوال کا بھی جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
گزشتہ دو برسوں کے دوران قابل تجدید ذرائع سے توانائی کے حصول کی سرگرمیاں بہت زیادہ زور پکڑ گئی ہیں۔ اب ایسے ماحول دوست بجلی گھر بنائے جا رہے ہیں، جو 150 گیگا واٹ تک کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کی قیمتوں میں بھی ڈرامائی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ حیاتیاتی انبار، پانی یا پھر جزوی طور پر ہوا سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت ابھی سے کوئلے سےحاصل ہونے والی بجلی کے برابر آ چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق توانائی کے قابل تجدید ذرائع سے مؤثر استفادے کی صورت میں دُنیا بھر میں ضرر رساں کاربن گیسوں کے اخراج میں ایک تہائی تک کی کمی کی جا سکتی ہے تاہم پروفیسر اوٹمار ایڈن ہوفر کے خیال میں یہ ذرائع مکمل طور پر خطرے سے خالی بھی نہیں ہیں:’’قابل تجدید ذرائع کو تکنیکی اعتبار سے بہت زیادہ ترقی دینے کی ضرورت ہے تاکہ ان پر آنے والی لاگت میں کمی آئے۔ قابل تجدید ذرائع کو آج کل کے معدنی ذرائع کے نظام کا حصہ بنانے پر جتنی لاگت آئے گی، ابھی اُس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں ہے۔ پھر حیاتیاتی توانائی میں جہاں امکانات چھپے ہوئے ہیں، وہیں زمین کے بے تحاشا استعمال اور درختوں کی کٹائی جیسے خطرات بھی پنہاں ہیں۔‘‘
دُنیا بھر میں 1.4 ارب انسان ابھی بھی بجلی کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ ایک ارب سے زیادہ انسان ابھی بھی جلانے کے لیے لکڑی وغیرہ استعمال کرتے ہیں، جو انسانی صحت کے لیے سنگین نتائج کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ IPCC کی رپورٹ کے مطابق توانائی کے قابل تجدید ذرائع خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں میں توانائی کے بحران کو حل کرنے میں بہت مدد دے سکتے ہیں۔ رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ سن 2050ء تک دُنیا میں توانائی کی 75 فیصد ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کی جا سکتی ہیں۔
توانائی کے قابل تجدید ذرائع
Posted on May 25, 2011
سماجی رابطہ