پاکستان میں حکام نے بیس مئی کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اگرچہ آٹھ گھٹنے کی پابندی تو عائد کی لیکن یہ معمہ حل نہیں ہوسکا کہ اس پابندی کی اصل وجہ کیا تھی۔
حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر کی انتظامیہ کی جانب سے ویب سائٹ پر توہین آمیز مواد ہٹانے کی یقین دہانی سے انکار کرنے کی وجہ سے پاکستان میں اِس سروس کو معطل کیا گیا۔
اہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر پر عارضی پابندی درحقیقت حکومت کے اس جامع منصوبے کا حصہ ہے جس میں انٹرنیٹ پر مخالف نقطۂ نظر رکھنے والے افراد پر کریک ڈاؤن سمیت بڑے پیمانے پر سنسرشپ کا نفاد شامل ہے۔
واضح رہے کہ اتوار کو پاکستان میں ٹوئٹر پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس بارے میں صبح سے ہی ٹویٹس آنا شروع ہو گئے تھے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے لگنے والی پابندی کا انکشاف ٹوئٹر پر سب سے پہلے بدر خورشید نامی ایک شخص نے کیا جس کی تردید فوراً وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ٹویٹ کے ذریعے ہی کی۔
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا ’میں تمام لوگوں کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ٹوئٹر اور فیس بک کی سروسز پاکستان میں جاری رہیں گی اور انہیں معطل نہیں کیا جائے گا اس لیے افواہوں پر کان نہ دھریں۔‘
پاکستان میں ٹوئٹر کے صارفین بظاہر حکومت کی جانب سے اس پابندی کو کامیاب ثابت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ اسی لیے یکے بعد دیگر ٹوئیٹ کے ذریعے پابندی کے خلاف آواز بلند ہونے لگی۔
ایک صارف نے ٹوئٹر پر ایک لنک بھیجا اور کہا کہ اس کے ذریعے پابندی کے باوجود ٹوئٹر استعمال کر کے پی ٹی اے کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا جائے۔
ٹوئٹر پر پابندی لگانے کے حکومتی موقف پر بہت سے بلاگرز نے سوال اٹھائے۔ پاکستان کے جانے مانے بلوگر ’کالا کوا‘نے ٹوئیٹ کیا کہ انہوں نے اتنے عرصے میں ٹوئٹر پر کوئی توہین آمیز مواد نہیں دیکھا۔
ایک اور بلوگر ڈاکٹر عواب علوی نے ٹویٹ کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی اے نے یو آر ایل کو فلٹر کرنے والی اپنی نئی سروس کے نتائج جانچنے کے لیے ٹوئٹر پر عارضی پابندی لگانے کا تجربہ کیاہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے ٹوئٹر پر پابندی لگنے کو افواہیں قرار دینے کے بعد پابندی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے کا دعوی بھی کر ڈالا اور سروس کی بحال کا سہرا بھی خود اپنے سر لے لیا۔
وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی بیٹی فضہ بتول نے بھی دعوی کیا کہ وزیر اعظم کی جانب سے پابندی معطل کرنے کے اعلان میں ان کی کافی محنت شامل ہے۔
حکومتِ پاکستان کی جانب سے پابندی لگانے کے عمل کو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کے باہر بھی لوگوں نے اسے خیالات کے اظہار کی آزادی پر قدغن قرار دیا۔
پاکستان میں ہیومن رائٹس واچ کے سربراہ علی دیان حسن نے پابندی لگنے کے بعد ٹویٹ کیا کہ لگتا ہے کہ حکومت کو اس مسئلے پر غلط تجویز دی گئی ہے کیونکہ اس طرح کی پابندی ہمیشہ غیر موثر ثابت ہوئی ہے۔
ٹوئٹر پر پابندی کی وجہ کیا تھی
Posted on May 23, 2012
سماجی رابطہ