امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے مالی وسائل سے تیار کردہ ایک مطالعاتی جائزے میں کاربن سے بنے شہابی پتھروں پر نئی تحقیق کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ان پتھروں کے ذریعے ڈی این اے کے لیے ضروری بنیادی مواد زمین پر پہنچا تھا۔
ابھی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں اس تحقیق پر کام جاری ہے۔ یہ تحقیق طویل عرصے سے زیر بحث چلے آ رہے اس مفروضے کو تقویت دیتی ہے کہ ہمارے سیارے پر زندگی کی ابتدائی اَشکال کے لیے ضروری بنیادی مواد کا کم از کم کچھ حصہ ان شہابی پتھروں کی وساطت سے زمین پر پہنچا تھا۔
سائنسدانوں نے کافی مقدار میں نامیاتی مادے کے حامل گیارہ شہابی پتھروں کو، جنہیں کاربونیشئس کونڈرائٹس (carbonaceous chondrites) کہا جاتا ہے، بڑے سپیکٹرومیٹری (spectrometry) آلات کی مدد سے اسکین کیا۔ ایسا کرتے ہوئے اُنہوں نے ان پتھروں میں تین نیوکلیوبیسز (nucleobases)دریافت کیے، جو ڈی این اے اور آر این اے بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ تحقیقی جائزے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے سیارے زمین پر یہ مادے یا تو بہت ہی کم کم ملتے ہیں یا سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔
سائنسدانوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ جن مقامات پر یہ شہابی پتھر آ کر ٹکرائے تھے، وہاں قریبی زمین یا برف کے نمونوں میں یہ عناصر نہیں مل سکے۔ اس جائزے کے مصنفین میں سے ایک جِم کلیوز (Jim Cleaves) ہیں، جن کا تعلق واشنگٹن کی جیو فزیکل لیباریٹری کے کارنیگی انسٹیٹیوٹ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’’ایسے نیوکلیو بیس مرکبات کا دریافت ہونا، جو عام طور پر ہماری زمین کی بائیو کیمسٹری میں نہیں پائے جاتے، غیر ارضی مادوں کی زمین پر موجودگی کے مفروضے کو تقویت دیتا ہے۔‘‘
اب تک کے مطالعاتی جائزوں کے مطابق کچھ شہابی پتھروں میں نیوکلیو بیسز ملے تو تھے لیکن اُن کی خاصیتیں اُس مواد سے بہت ملتی جلتی تھیں، جو پہلے ہی زمین پر پایا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ بحث زور پکڑ گئی تھی کہ آیا یہ مواد ان پتھروں میں پہلے سے تھا یا ان پتھروں نے زمین سے ٹکرانے کے بعد پہلے سے یہاں موجود عناصر کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا۔
رواں سال کے آغاز پر ناسا نے اپنی خلائی ایجنسی کے ایک ملازم کے اس دعوے سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا کہ اُسے شہابی پتھروں میں سے غیر ارضی بیکٹیریا کے شواہد ملے ہیں۔
زمین پر زندگی میں غیر ارضی حیاتیاتی مواد کا کردار
Posted on Aug 11, 2011
سماجی رابطہ