ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں لسانی اور ثقافتی تنوع میں کمی کی ایک وجہ حیاتیاتی تنوع میں کمی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ دنیا کی ستر فیصد زبانیں ایسے مقامات پر پائی جاتی ہیں جہاں حیاتیاتی تنوع زیادہ ہو۔
اس تحقیق کے مطابق ان اہم ماحولیاتی خطوں کو وقت کے ساتھ ساتھ نقصان پہنچ رہا ہے اور اس سے ثقافت اور زبانوں، دونوں کا خاتمہ ہو رہا ہے۔
ماہرینِ حیاتیات کے اندازوں کے مطابق اس وقت ہم تاریخی لحاظ سے ہزار گنا تیزی سےحیوانات کی اقسام کی تعداد میں کمی دیکھ رہے ہیں۔ ادھر دوسری جانب ماہرینِ لسانیات کا کہنا ہے کہ اس صدی کے آخر تک پچاس سے نوے فیصد زبانیں ختم ہو جائیں گی۔
اس تحقیق کے سربراہ پین سٹیٹ یونیورسٹی کے لیری گورنفلو کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے کی گئی تحقیقات نے ان دونوں رجحانات کو جغرافیائی طور پر منسلک تو کیا ہے تاہم جس حد تک تفصیلات ضروری ہیں، اتنی وہ فراہم نہیں کرتیں۔
ڈاکٹرگورنفلو کا کہنا ہے کہ پہلے سے موجود ڈیٹا میں مسئلہ یہ ہے کہ زبانیں یا تو ملکوں کے بیچ تقسیم کر دیں جاتی ہیں یا پھر نقشے پر صرف ایک نکتے سے ان کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جدید ترین لسانی اعداد و شمار استعمال کر کے زبانوں اور حیاتیاتی تنوع میں ہم آہنگی کا بہتر تعین کیا ہے اور یہ بھی معلوم کیا ہے کہ زبانیں علاقائی طور پر کس قدر وسیع تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اس تحقیق میں ایسی جگہوں کے قیام کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے جہاں حیاتیاتی تنوع زیادہ ہے، جیسے کہ نیشنل پارک وغیرہ۔
اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں بولی جانے والی انسٹھ سو زبانوں میں سے اڑتالیس سو زبانیں ایسے علاقوں میں پائی جاتی ہیں جہاں حیوانات کی قسموں میں کثرت ہو۔
ڈاکٹرگورنفلو نے ان جگہوں کو انتہائی اہم قرار دیا مگر کہا کہ ان کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تحقیق مستقبل میں حیوانات یا لسانیات کے تحفظ کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا ماضی میں ماہرینِ حیاتیات لوگوں کی عادات پر زیادہ غور نہیں کرتے تھے مگر اب مختلف شعبوں میں تحقیق کرنے والے سائنسدان مل کر انسانوں پر ماحول کے اہم جز کے طور پر تحقیق کر رہے ہیں۔
زبانیں اچھے قدرتی ماحول میں پنپتی ہیں
Posted on May 14, 2012
سماجی رابطہ