25 اپریل 2015
وقت اشاعت: 12:19
ملیریا کا عالمی دن ،طبی سہولتوں کے فقدان کے باعث مرض میں اضافہ
کوئٹہ........بلوچستان صحت کےحوالے سے ویسے ہی کئی مسائل کا شکار ہے،اس پرصوبے میں ملیریا کی تشویش ناک صورت حال محکمہ صحت کے لئے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ صوبے کے 32میں سے 22اضلاع کو ملیریا کے اعتبار سے ہائی رسک قرار دیاگیاہے۔ملیر ۔بلوچستان میں کوئی بیماری ہو ، بکھری آبادی ، زیادہ فاصلوں ، سہولتوں کی کمی اور آگہی کے فقدان کی وجہ سے جاں لیوا ہی بن جاتی ہے ،یہی صورتحال ہے ملیریا کی جو بظاہر تو مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی معمولی بیماری نظر آتی ہے ۔ مگر بروقت تشخیص اور موثر علاج نہ ہونے کے باعث خطرناک صورت حال اختیار کررہی ہے ۔اس کا اندازہ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار سے ہوتا ہے جن کے مطابق بلوچستان میں سالانہ تقریبا 60ہزار افراد اس خطرناک بیماری کا شکار ہورہے ہیں.ان میں 17فیصد کیسز دماغی ملیریاکے ہیں جسے گردن توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے ۔اس میں بلوچستان میں 20ہائی رسک ڈسٹرکٹس ہیں ،پشتون بیلٹ میں پشین، موسی خیل، ، لورالائیاور پھر گوادر، پنجگور۔ملیریا ایک بہت lethal disease ہے۔ملیریا کی علامات میں تیز بخار ہونا، قے آنا، پیچش اور سر میں شدید درد شامل ہیں۔صوبے میں ملیریا کنٹرول پروگرام، اسلام آباد، عالمی ادارہ صحت اور سیو دی چلڈرن کے تعاون سے ملیریا کی روک تھام اور علاج کے لئے کوششیں تو کی جارہی ہیں مگر آگہی ، تربیت یافتہ طبی عملے اور صحت کے انفرا اسٹرکچر کی کمی کے باعث یہ کوششیں زیادہ بارآور ثابت نہیں ہورہیں۔ملیریا پروگرام کا مقصد بلوچستان میں ملیریا کے کیسز میں 60فیصد تک کمی لانا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں ملیریا کی تشویش ناک صورتحال کے پیش نظر صوبے کے دوردراز علاقوں میں سرکاری سطح پر اس کے زیادہ سے زیادہ تشخیصی مراکز اور فوری تشخیصی کٹس کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں پائیدار مچھردانیوں کی فراہمی سے بھی ملیریا کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔