25 فروری 2011
وقت اشاعت: 11:21
مردوں میں غدود کا کینسر
بیماریوں کے بچاؤ کے امریکی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق مردوں میں سرطان کی سب سے عام قسم پروسٹیٹ کینسر ہے۔ ورلڈ کینسر ریسرچ فنڈ کےاعداد و شمار کے مطابق 2008 میں نو لاکھ مرد اس کینسر میں مبتلا ہوئے جبکہ 2030 تک اس کے مریضوں کی تعداد تقریبا دگنی ہو سکتی ہے۔ تاہم ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں میں یہ مرض خطرناک نوعیت کا نہیں ہوتا ۔
سٹیون پائن سن میں پراسٹیٹ کینسر کی تشخیص تین سال پہلے ہوئی تھی۔ مگر رپورٹس کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ ان کا کینسر بہت معمولی نوعیت کا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے ڈاکٹر نے کینسر کا علاج کرنے کی بجائے مرض کے پھیلاؤ کی نگرانی کا فیصلہ کیا۔ کینسر کی نگرانی کے اس عمل کو طب میں active surveillance کہا جاتا ہے۔
امریکی ریاست بوسٹن کے ڈینا فابر کینسر سینٹر کی ڈاکٹر جولیا ہینز کا کہنا ہے کہ نگرانی کے عمل میں خون کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں تاکہ جسم میں پروٹین کی مقدار کا اندازہ لگایا جا سکے۔
ان کا کہناہے کہ یہ ایک نیا طریقہ ہے جس میں مریضوں کے کینسر کی ابتدائی سٹیج میں علاج کرنے کی بجائے ان کےجسم کا معائنہ اور خون کے ٹیسٹ اور Biopsies کی جاتی ہیں۔ پھر اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ مریض کو سرجری کی ضرورت ہے کہ نہیں۔
اس طریقہ ِ علاج میں ڈاکٹرز اور مریضوں دونوں کو ہی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ سرجری سے بعض اوقات مریض کی پوری زندگی متاثر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر جولیا ہینز اور دیگر ڈاکٹروں نے 65 سال کی عمر کے ایک لاکھ افراد کا ڈیٹا کمپیوٹر میں ڈالا جن میں غدود کے کینسر کی ابتدائی سٹیج کی تشخیص ہوئی تھی۔ اور انہوں نے سرجری یا پھر اس کی نگرانی کا طریقہ اپنایا تھا۔
مگر امریکی ریاست واشنگٹن کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی اسپتال کے ڈاکٹر شین کولنز ان مریضوں کے لیے نگرانی کا طریقہ تجویز کرتے ہیں جن کی زندگی کے دس سال یا اس سے کم رہنے کی امید ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ جب ہم ان غدود کی Biopsies کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ پورے طریقے سے کینسر کا علاج ہو گیا ہو ، کینسر کی موجودگی کے امکانات باقی رہتے ہیں۔
انکا کہنا ہے کہ پھر بھی یہ تحقیق اچھی ہے کیونکہ معیار زندگی کا مطلب ہر شخص کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ اور پراسٹیٹ کے کینسر کے علاج میں اس کا دھیان رکھنا ضروری ہونا چاہیئے۔