کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کو ڈاکٹر کے پاس اس لیے جانا پڑا کہ آپ کو اپنے کانوں میں بھنبھناہٹ جیسی آوازیں سنائی دینے لگیں جو درحقیقت اپنا وجود نہیں رکھتی تھیں۔اگر ایسا ہوا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ صرف امریکہ میں ہر سال تقریباً پانچ کروڑ افراد اس مرض میں مبتلاہوجاتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں اس کے مریضوں کی تعداد کا تخمینہ دوارب سے زیادہ کا لگایاگیا ہے۔اس مرض کا نام ہے Tinnitusجس کا تاحال کوئی مستند علاج موجود نہیں ہے۔
ریٹائرڈ کرنل ہورس ہمفریس کا کہنا ہے کہ ٹینی ٹس کے مرض سے آپ کی پوری زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے ایسی راتیں بھی گزاریں جب میں سو نہیں سکا۔ اس بیماری کی وجہ سے میری یادداشت بھی متاثر ہوئی ہے۔ میں اب زیادہ اونچی آوازیں نہیں سن سکتا۔
کرنل ہمفریس امریکی فضائیہ سے منسلک تھے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ ویت نام جنگ کے دوران جو وہ اپنے مرکز کی طرف جارہے تھے تو ایک راکٹ ان کی جیپ کے قریب آکر پھٹا ۔
ان کا کہناہے کہ راکٹ کے پھٹنے سے میری جیپ ایک طرف سے اٹھ گئی اور اس کی تیز آواز سے میرے کان بج اٹھے۔
ان کے کانوں میں آوازیں بجنے کا سلسلہ اس کے بعد شروع ہوا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جاری رہا۔ ایک اندازے کے مطابق فوج کے 20 سے 40 فیصد افراد کان بجنے کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور عمر کے اضافے کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بڑھتا ہی جاتا ہے ۔ واشنگٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر جے پی سیریلو کے مطابق اس مرض میں مبتلاہونے والے افراد خود کو بہت اکیلا محسوس کرتے ہیں۔
ان کے نزدیک Tinnitus کا مرض نہ صرف آپ کے صوتی نظام کو متاثر کرتا ہے بلکہ رفتہ رفتہ دماغ کے کچھ حصوں کو بھی متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ گو وہ زوردار آواز جس کی وجہ سے آپ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں، غائب ہو جاتی ہے لیکن اس آواز کی گونج آپ کے کانوں میں باقی رہتی ہے۔
لیکن یہ ضروری نہیں کہ جنگ سے واپس آنے والے تمام فوجی ٹینی ٹس کے مرض میں مبتلا ہوں۔ تو ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور کچھ نہیں؟ یہ وجہ جاننے کے لیے ریاست ٹیکساس کی واشنگٹن یونیورسٹی نے عراق اور افغانستان جانے سے پہلے دو سو امریکی فوجیوں کے انٹرویو اور ان کے دماغ کے ایکس رے کیے۔تاکہ واپسی پر ان فوجیوں کے دماغ کے ایکس رےاور انٹرویوز دوبارہ کرکے یہ دیکھا جا سکے کہ ان میں سے کتنے فوج اس مرض میں مبتلا ہوئے۔
امریکی ریاست پنسیلوانیا کی پٹس برگ یونیورسٹی کے میڈیکل کالج سے منسلک ڈاکٹر تھانو زونوپولس اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے دماغ دیگر لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں ۔انہوں نے اس حوالے سے اپنی لیبارٹری میں چوہوں پر تجربہ کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نےنوٹ کیا کہ جن چوہوں میں اس بیماری کے آثار دکھائی دیتے تھے انہیں جب تیز آوازیں سنائی گئیں تو ان کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات نارمل چوہوں سے زیادہ تھے۔
ان چوہوں کوآواز کی ایک خاص حد میں 45 منٹ تک رکھا گیا ۔ یہ آواز ایمبولینس کے سائرن جتنی تھی۔ چند ہفتے بعد ، ماہرین نے انہیں نسبتا کم آواز میں رکھا ۔ یہ آواز دل کی دھڑکن کی طرح تھی جسے وقفے وقفے سے چلایا اور بند کر دیا جاتا ۔ عام چوہوں میں اس آواز کے نسبتاً کم اثرات دیکھے گئے جبکہ وہ چوہے جن میں ٹینی ٹس کے آثار موجود تھے ، وہ ان آوازوں سے زیادہ متاثر ہوئے۔ اس مرض پر کام کرنے والے ماہرین کا کہناہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ کانوں میں بجنے والی آوازوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ سائنس دان نئی نسل کے بارے میں بہت فکرمند ہیں جو ایم پی پلیئرزپر اونچی آواز میں گانے سنتی ہے ۔ ان کا کہناہے کہ جیسے جیسے ان کی عمر بڑھے گی ان میں ٹینی ٹس میں مبتلا ہونے کا امکان بھی بڑھتا جائے گا۔ اور تب ان کے کانوں میں ہر وقت گونجتی آوازوں کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔