2 جون 2011
وقت اشاعت: 8:43
تپ دق کا نیا اور آسان علاج
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کی تقریبا ایک تہائی آبادی کسی نہ کسی انداز میں ٹی بی کے جراثیم سے متاثر ہے۔ ٹی بی کے روایتی طریقہ ِ علاج میں مریضوں کو روزانہ چودہ گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کئی مریض اس لیے مکمل طورپر صحت یاب نہیں ہوپاتے کیونکہ وہ درمیان میں ہی دوا کا کورس چھوڑ دیتے ہیں۔ اب ایک نئی تحقیق کے بعد اس مسئلے کا ایک آسان حل نکالا گیا ہے ۔
ایک دہائی قبل عالمی ادارہ ِ صحت کی جانب سے ٹی بی جیسے موذی مرض کے علاج کے لیے مختلف ادویات کو ملا کر چار دوائیں بنانے کی تجویز سامنے لائی گئی۔ جس کی افادیت اس مرض کے علاج کے لیے روایتی 14 دوائیوں کے برابر تھی۔
تاہم بہت سے ڈاکٹر بعض سی طبی وجوہات کے پیش ِ نظر کم ادویات کا نسخہ دینے سے گریز کرتے رہے۔
مگر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق سے ظاہر ہواہے کہ نئی چار ادویات اتنی ہی موثر ہیں جتنا کہ ٹی بی کی روایتی چودہ دوائیں ہیں۔
ڈاکٹر کرسچن لائن ہارٹ مختلف ممالک میں ٹی بی کی نئی اور پرانی ادویات کے جائزے کی ٹیم میں شامل تھے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر میں مریض زیادہ ادویات کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ ٹی بی کے پرانے طریقہ ِ علاج میں مریضوں کو چھ ماہ میں روزانہ چودہ دوائیں کھانی پڑتی ہیں۔ جبکہ اگر صرف چار دواؤں کا انتخاب موجود ہو تو زیادہ تر لوگ اسے ترجیح دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ طبی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ جب آپ آزمائی ہوئی دوا استعمال کرتے ہیں تو آپ اس کی افادیت سے پوری طرح آگاہ ہوتے ہیں۔ لیکن جب آپ مختلف ادویات کو اکٹھا کر دیں گے تو پھر یہ معلوم نہیں ہوپاتا کہ کس دوا کی افادیت کتنی ہوگی۔
ٹی بی ایک مخصوص بیکٹیریا کے ذریعے پھیلنے والی بیماری ہے جو پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے۔ یہ مرض ان لوگوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہو ۔ ایک اندازے کے مطابق ٹی بی کا مرض ہر سال دنیا بھر 20 لاکھ افراد کو نگل لیتا ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ بروقت علاج کے ذریعے اس مرض پر قابو پانا ممکن ہے۔
ٹی بی کے روایتی طریقہ ِ علاج میں مریض کوان کے وزن کے تناسب سے روزانہ بارہ سے بیس تک دوائیں دی جاتی ہیں۔ جبکہ مختلف ادویات کو ملا کر بننے والی دوا مریض کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔
گیارہ ممالک میں کی جانے والی اس تحقیق میں ڈاکٹر لائن ہارٹ اور ان کے ساتھیوں نے مریضوں کو دو گروپس میں بانٹا ۔ ایک گروپ نے ٹی بی کی ادویات کو ملا کر بننے والی نئی دوا جبکہ دوسرے نے ٹی بی کی ادویات کے پرانے طریقے کو اپنایا۔ نتائج سے ثابت ہوا کہ دونوں ادویات ایک ہی طرح موثر رہیں۔
ڈاکٹر لی ریچ مین پچھلے چالیس سال سے ٹی بی پر تحقیق کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹی بی کے علاج کی اس نئی دوا کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ طبی ماہرین ، پالیسی میکرز اور مریضوں کی تنظیموں کو اس مہم کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔