آہ کو چاہیے

آہ کو چاہیے

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

دام ہر موج میں ہے حلقہ صاد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

ہم نے مانا کے تغافل نا کروگے لیکن
خاک ہو جائینگے ہم تم کو خبر ہونے تک

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

یاک نظر بیش نہیں فرصت ہستی غافل
گرمی بزم ہے اک رقص شرار ہونے تک

غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

Posted on Feb 16, 2011