بیتاب نظریں یوں ملی

بیتاب نظریں یوں ملی

بیتاب نظریں یوں ملی اقرار ہم کرنے لگے ،
یہ کیا ہوا کیوں اس طرح اظہار ہم کرنے لگے .

چھلکے ہوئے جذبات کچھ آنْسُو بھی کچھ بکھرے ہوئے ،
اب قطرہ قطرہ زندگی سرشار ہم کرنے لگے .

شاداب ہیں آنکھیں لہو سے کچھ گلابی شام ہے ،
قوس و قزح رنگوں میں گفتار ہم کرنے لگے .

ویران کدے میں آ گئے جو وہ بہاروں کی طرح ،
ان کے تصور سے سخن گلزار ہم کرنے لگے .

رہنے لگے ہیں گریزاں تو تمھارے قرب سے ،
اس عہد الفت سے غضب کا پیار ہم کرنے لگے .

شمع کیوں شکوہ گلہ اہل وفا ٹھہرے جو ہم ، ،
جلتے ہوئے شعلوں کا دریا پار ہم کرنے لگے . . .

Posted on Feb 16, 2011