چپ چپ
بھیگی شام کے ساحل پر کشتیاں چپ چپ رہتی ہیں
جیسے ہجر کی پہلی چوٹ پر لڑکیاں چپ چپ رہتی ہیں
میری چپ کی دیواروں سے بھی کئی سوال چسپاں ہیں
اس کے کومل ہونٹوں پہ بھی کچھ پہیلیاں چپ چپ رہتی ہیں
اس پرانی خوشبو سے میرے آنگن کا رشتہ تھا
اب پھول بھی گم سم لگتے ہیں اور تتلیاں چپ چپ رہتی ہیں
آخر شب ساون بن کر اس کد آنکھوں سے برستی ہیں
بظاہر اس کی چھت پر جو بدلیاں چپ چپ رہتی ہیں
جانے وہ کس حال میں ہے کئی دنوں سے خبر ہی نہیں
میری گلی سے گزریں تو اس کی سہیلیاں چپ چپ رہتی ہیں
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ