چپ رہا
میں پی کے چپ رہا وہ پلا کے چپ رہا .
کیا گلاب تھا جو مُرجھا کے چپ رہا .
حالات نے کیا اسے کتنا سنگدل .
میں سن کے رو دیا وہ سنا کے چپ رہا .
بدلے ہوئے حالات مجھے غمگین کر گئے .
وہ پھر بھی دور سے ہی مسکرا کے چپ رہا .
شاید وہ توڑنا نہیں چاہتا تھا دل میرا .
اسلیے اتنا قریب آ کے بھی چپ رہا .
وہ دور ہوگیا میں کچھ بھی نا کر سکا .
آنکھوں سے فقط آنسوں بہا کے چپ رہا . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ