ایک کہانی کم ہے
یوں تو مہ خانے میں مہ کم ہے نا پانی کم ہے ،
پھر بھی کچھ کشتی صہبا میں روانی کم ہے .
سچ تو یہ ہے کے زمانہ جو کہے پھرتا ہے ،
اس میں کچھ رنگ زیادہ ہے کہانی کم ہے .
آؤ ہم خود ہی در یار سے ہو آتے ہیں ،
یہ جو پیغام ہے قاصد کے زبانی کم ہے .
تم باضد ہو تو چلو ترک ملاقات سہی ،
ویسے از دل نے میری بات تو مانی کم ہے .
یاد رکھنے کو تو آئے دوست بہت ہیلی تھی ،
ایک تیرا زخم جدائی تو نشانی کم ہے .
دفتر شوق مرتوب ہو تو کیسی ہو فراز ، ،
دل نے ہر باڑ کہا ، ایک کہانی کم ہے ~ . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ