کہا نا جائے
طے ہونگے کس طرح یہ مراحل کہا نا جائے
اس تیرگی میں کیا ہے مقابل کہا نا جائے
خود دے دیے ہیں میں نے اسے ہاتھ کاٹ کر
وہ لکھ دیا ہے جو سر محفل کہا نا جائے
پتھر ہوئے وہ لفظ کے تھے جیتے جاگتے
اس خامشی سے کیا ہوا حاصل کہا نا جائے
اب تک تو چل رہے ہیں تیرے ساتھ ساتھ ہم
آئینگی کس جگہ حد فاصل کہا نا جائے
نشہ ہے یا کے زہر فضا میں ملا ہوا
کچھ ہے ہر ایک چیز میں شامل کہا نا جائے
آخر کہیں تو بیٹھ گئے پاؤں توڑ کر
پھر کیا کہینگے اگر اسے منزل کہا نا جائے
یہ اور بات کچھ بھی دکھائی نا دے سکے
آنکھیں کھلی ہوئی ہوں تو غافل کہا نا جائے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ