کوئی نا دیکھ سکا
ستارا اپنی بھی تابندگی نا دیکھ سکا
وہ دھند تھی کے یہ منظر کوئی نا دیکھ سکا
تلاش کرتے ہوئے انگلیاں جلا ڈالیں
وہ تیرگی تھی کہ میں شمع بھی نا دیکھ سکا
ملا تھا شام مجھے اک بجھا ہوا سورج
میں اس کے بعد پھر روشنی نا دیکھ سکا
جو ربط باقی تھے سب قطع کر لیے اس نے
وہ مہربان میری بےچارگی نا دیکھ سکا
نگاہ ویسے تو بام فلک کو چھو آئی
میں جس زمین پے کھڑا تھا وہی نا دیکھ سکا
وہی ہے آئینہ خانہ وہی ہیں تصویریں
میں عمر بھر کوئی صورت نئی نا دیکھ سکا
تمام شہر میں وہ دیدہ وار ہوا مشہور
وہ اپنی ناک سے آگے کبھی نا دیکھ سکا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ