سمجھ میں یہ نہیں آتا

سمجھ میں یہ نہیں آتا

سمجھ میں یہ نہیں آتا کے دل کی خو کیا تھی
سفر تو آٹھ پہر کا تھا جستجو کیا تھی

وہ آبشار کے پانی سی طبع رکھتا تھا
مگر تھکے ہوئے لہجے کی گفتگو کیا تھی

ہوئی شکست جہاں فتح کا یقین ہوا
کوئی چھپا ہوا دشمن تھا آرزو کیا تھی

تلاش کرتے ہو کس شے کو اس خرابے میں
درخت ہی نا رہے شاخ رنگ و بو کیا تھی

تُو آفْتاب اگر تھا تو کیوں غروب ہوا
یہ روشنی سی تیرے بعد چار سو کیا تھی

درخت پختہ چھتیں توڑ کر نکل آئے
یہ اک عذاب ہی تھا قوت نمو کیا تھی

Posted on Feb 16, 2011