کیا ہوگا
نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا
نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر
نئی سحر بھی کجلا گئی تو کیا ہوگا
نا رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو
میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہوگا
غم حیات سے بے شک ہے خودکشی آسان
مگر جو موت بھی شرما گئی تو کیا ہوگا
شباب لالہ و گل کو پکارنے والوں
خزاں سرشت بہار آ گئی تو کیا ہوگا
یہ فکر کر کے اس آسودگی کے دھوکے میں
تیری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہوگا
خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نا کر
جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہوگا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ