لبوں پے رکتی ، دلوں میں سما نہیں سکتی
لبوں پے رکتی ، دلوں میں سما نہیں سکتی
وہ اک بات جو لفظوں میں آ نہیں سکتی
جو دل میں ہو نظر غم تو اشک پانی ہے
کہ آگ خاک کو کندن بنا نہیں سکتی
یقین ، گمان سے باہر تو ہو نہیں سکتا
نظر خیال سے آگے تو جا نہیں سکتی
دلوں کی رمز فقط اہل دل جانتے ہیں
تیری سمجھ میں میری بات آ نہیں سکتی
یہ سوز عشق تو گونگے کا خواب ہے جیسے
میری زبان میری حالت بتا نہیں سکتی
سمٹ رہی ہے میرے بازوؤں کے حلقے میں
حیا کے بوجھ سے پلکیں اٹھا نہیں سکتی
جو کہہ رہا ہے سلگتا ہوا بدن اس کا
بتا بھی پاتی نہیں ، اور چھپا نہیں سکتی
اک ایسے ہجر کی آتَش ہے میرے دل میں جیسے
کسی وصال کی بارش بجھا نہیں سکتی
تو جو بھی ہونا ہے ، امجد یہیں پے ہونا ہے
زمین مدار سے باہر تو جا نہیں سکتی
لبوں پے رکتی ، دلوں میں سما نہیں سکتی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ